ڈار’ڈالر اور ڈکٹیٹر

کارپوریٹ میڈیا کے اینکرز اور حکومت کے بڑے اسحاق ڈار کو بہت ارمانوںسے لندن سے ایک خصوصی جہاز میں لائے تھے۔ ان کی آمد سے پہلے ماحول بنانے اور سماں باندھنے کی خاطرانہیں معیشت کی ڈولتی ہوئی کشتی کے تجربہ کار ناخدا کے طور پر پیش کیا گیاتھا ۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت کے معمولی اُتار چڑھائو کواسحاق ڈار کی شخصیت کی دھاک اور رُعب کا باعث قرار دیا جانے لگا۔کئی ماہ کی امیدوں اور فرضی کہانیوں اور طفل تسلیوں کے بعد اسحاق ڈار نے کہہ دیا کہ پاکستان کی معیشت کی بہتری اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ معیشت ہی کیا یہ ملک بھی بس خدا کے سہار ے ہی پچہتر برس سے چلتا چلا جا رہا ہے۔ اس پر” کالج کی بس” کے نام سے ایک پرانی فکاہیہ نظم کا یہ مصرع صادق آتا ۔
کمالِ نہ ڈرائیور نہ خوبیٔ انجن ،خدا کے سہارے چلی جارہی ہے
اسحاق ڈار کے اعتراف شکست کے ساتھ ہی ڈالر آسمان کی بلندیوں پر اُڑ رہا ہے اور جمہوری حکومت جمہوی طور طریقوں کو خیر باد کہہ کرآئین کی حدود سے باہر تانک جھانک کرنے لگی ہے جو ڈکٹیٹر شپ کی خاص ادا ہوتی ہے۔ جس کا ثبوت فواد چوہدری کی توہین الیکشن کمشنر کے الزام میں گرفتاری ہے ۔جس سے ملک میں پہلے سے گرم ماحول کی حدت میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیا ۔ایک طرف ملک بدترین اقتصادی بحران کا شکارہے اور اس بحران سے نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی اور سُجھائی نہیں دے رہی ۔معاشی بحران کسی بڑی سرجیکل آپریشن کا متقاضی ہے ۔تمام صلاحیتوں کو اسی راہ میں لگانے اور کھپانے کا تقاضا کرتا ہے ۔قوم کو تاریخ میں دوسری بار خوفناک بحران کا سامنا ہے ۔اہل نظر موجودہ بحران کو اکہتر کے اس بحران سے زیادہ ہلاکت خیز اور تباہ کن قراردیتے ہیں جو ملک کے ایک حصے کو ہی بہا کر لے گیا تھا ۔یوں لگتا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ بھی نہیں سیکھا گیا ۔اب بھی وہی تجربات دہرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے جن سے ملک کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔انہی تجربات نے ملک کو ایک تماشا بنا دیا ہے ۔اس نظام کی طبعی عمر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پوری ہوگئی تھی ۔اصولی طور پر پی ڈی ایم کی حکومت کو اس اسمبلی کے سہارے دن گزارنے کی بجائے عوام کی دانش پر اعتماد کرتے ہوئے انتخابات کا راستہ اختیار کر نا چاہئے تھا ۔یہی وہ اسمبلی تھی جسے پی ڈی ایم کی قیادت ہاتھ لہرا لہرا کے جعلی اور دھاندلی زدہ قراردیتی تھی اور اس کے منتخب کردہ وزیر اعظم کو سلیکٹڈ قراردینے میں تامل نہیں تھا ۔اب اسی اسمبلی کو سینے سے چمٹائے مراعات کا لطف لیا جا رہا ہے ۔اس روش نے موجودہ سسٹم کو بے جان لاش بنا دیا ہے ۔یہ سسٹم اب چلتا نہیں صرف گھسٹ رہا ہے ۔ملک کے حالات برق رفتار ی کا تقاضا کرتے ہیں ۔مگر سسٹم گھسٹ اور
رینگ رہا ہے ۔اس طرز عمل سے ملک کے معاشی اور سماجی مسائل مزید گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں ۔عمران خان اپنے دعوے کے مطابق دوصوبوں کی حکومتیں قربان کر چکے ہیں ۔قومی اسمبلی سے بھی وہ رخصت ہو چکے ہیں ۔دوصوبوں میں نگران حکومتیںقائم ہو چکی ہیں ۔اصولی طور پر دوصوبوں میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہونا چاہئے مگر حکومت کو ہر بات قبول ہے سوائے انتخابات کے ۔انتخابات کے لفظ سے ہی حکومت خوف محسوس کر رہی ہے اور اس کی وجہ عمران خان کی مقبولیت ہے ۔عمران خان کی مقبولیت کا توڑ کرنے کے لئے جتنے بھی بیانئے گھڑے گئے پھیکے اور بے اثر نکلے ۔عوام نے زبان پر رکھتے ہی انہیں چھوڑ دیا ۔سوال یہ ہے کہ عمران خان کے غیر مقبول ہونے کی موہوم امید پر کب تک عوام کا سامنا کرنے سے گریز کیاجاتا رہے گا ۔عمران خان اگر پانچ سال تک غیر مقبول نہیں ہوتے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ الیکشن پانچ سال تک ملتوی ہوتے رہیں گے ۔ایسی صورت میں آئین پاکستان کاکرنا ہوگا کیو نکہ آئین میں صرف پارلیمانی جمہوریت کا ذکر ہے اور جمہوریت کی خامی اور خرابی کا علاج ایک اور جمہوری تجربے میں بیان کیا گیا ہے ۔آئین میں ٹیکنوکریٹس سمیت کسی دوسرے تصور ِحکومت کا
کوئی ذکر نہیں ۔فی الحا ل عمران خان کی مقبولیت کا گراف کم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔اس لئے بہتر ہے کہ چودہ جماعتوں کی قومی حکومت اب اقتدار مٹھی بھر ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے حوالے کرنے کی بجائے عوام کی دانش کے آگے سپر ڈال دے۔خود کو عوام کی عدالت میں کھڑا کرے اور جمہوریت میں عوام ہی بہترین منصف ہوتے ہیں۔ڈار اور ڈکٹیٹر شپ کی طرح ڈالر کی کہانی بھی ہوش رُبا ہے اور دردناک بھی ۔امریکی ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے دوسرے لفظوں میں پاکستانی روپیہ اپنی پچہتر سالہ تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ڈالر کو زمیں بوس کرنے کے اسحاق ڈار کے دعوے اب روپے کے زمیں بوس ہونے کا منظر دکھا رہے ہیں۔یہ حالات عوام کی رگوں کا خون اور ہڈیوں کا گودا نچوڑنے کا باعث بن رہے ہیں ۔ملک میں کروڑوں لوگ پہلے ہی خط ِغربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے تھے روپے کی اس تاریخی ناقدری کے باعث یہ تعداد بڑھ جائے گی ۔پاکستانی بینکوں میں پڑے ہوئے پاکستانی عوام کے روپے کاغذ کے ٹکڑے بنتے جا رہے ہیں ۔مہنگائی کے سیلاب کے آگے باندھے گئے تمام بندھ ٹوٹتے جا رہے ہیں اور عوام کی قوت ِخرید جواب دیتی جا رہی ہے ۔اس مہنگائی کا اثر پاکستان کے حکمران طبقات اور بااثر فیصلہ ساز اشرافیہ پر نہیں پڑرہا کیونکہ ان کی جائیدادیں او رکاروبار پونڈز اور ڈالروں کی دنیا میں ہیں ۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے ان کو فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔مہنگائی اور معاشی بدحالی کی زد اس عام پاکستانی پر پڑتی ہے جس کا مرنا جینا پاکستان میں ہے۔اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے جن کی وفا اس مٹی سے ہے ۔بالادست کلاس کا اس ملک سے صرف مراعات ملازمت اور حکومت کا تعلق باقی رہ گیا ہے ۔ڈالر کی بلند پروازی اور روپے کے زمیں بوس ہونے کے یہ نظارے ایسے دور حکومت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں جو بزعم ِ خود تجربہ کار اور اہل تھے ۔نو ماہ گزرچکے ہیں نہ تجربہ کام آیا اور نہ ہی اہلیت کا کوئی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔اُلٹا ملک کی معاشی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوگئی ۔نوماہ میں ڈالر کی قیمت میں اسی روپے کا اضافہ موجودہ حکومت کے تجربے اور اہلیت کے دعوئوں کا منہ چِڑا رہا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں بنیادی خرابیوں کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کے آثار ملتے تھے جس سے ایک امید قائم تھی کہ مشکل اور عُسرت وتنگ دستی کے ان دنوں کے بعد شاید اچھے دن آئیں گے اور ملک پچہتر سال بعد اصل ڈگر پر آئے گا اور یوں ملک کی سمت درست ہوجائے گی ۔حقیقت یہ ہے کہ موجود ہ حکومت نے یہ امید بھی چھین لی ہے اور اب یہ بات طے ہو چکی ہے ملک کو اسی راہ پرچلانا ہے جس پر وہ پچہتر سال سے چل رہا ہے اور پچہتر سالہ سفر کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کا خزانہ خالی ہے اور کشکول اُٹھائے دوسرے ملکوں کے دروازوں پر دستک دینے پر مجبور ہے ۔موجودہ حکومت سے کسی دوررس منصوبہ بندی کی توقع نہیں رہی ۔دن گزارنے کی اس پالیسی نے ملک کو یہ دن دکھائے ہیں ۔یوں لگ رہا ہے کہ ملک ایک بند گلی میں کھڑا ہے ۔بند گلی سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور سبیل بھی نظر نہیں آرہی معاشی بحران کے ساتھ ہی توانائی کا بحران بھی دروازے پر کھڑا ہے اور توانائی کے بحران کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں مزید کمی ۔اس سے ملک کی صنعت کا پہیہ جو پہلے ہی آہستہ روی کا شکار ہے مزید سست ہوجائے گا ۔اب وقت آگیا ہے کہ فیصلہ ساز قوتیںاور حکمران ذاتی پسند وناپسند کی بجائے قوم وملک کے مستقبل کی بنیاد پر فیصلہ کرکے ملک کو حالات کی اس بند گلی سے نکالیں ۔دن لگانے اور ڈنگ ٹپانے کی پرانی روش نے ملک کو بدحالی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات