شیطان وائی فائی

ارد و ادب کی دنیا میں سید سلمان گیلانی کسی تعارف کے محتاج نہیں طنز و مزاح کی دنیا کا یہ بے تاج بادشاہ شعری ذوق سے نابلد نئی نسل کے بھی مقبول شاعر ہیں ۔ طناز ا کثر ایک آدھ جملے میں گہری بات کہہ جاتے ہیں ان کا ایک گہرا شعر جو زمانہ جدید کی ایک ایجاد اور نئی نسل کی ضرورت و عشق کے بارے میں ہے وائی فائی سے ہماری نسل کی سمجھ کی ہو نہ ہو ہم ذرا تاخیر سے اس سے آشنا ہوئے لیکن نئی نسل پنگھوڑے سے اس سے آشنائی لے کر آتی ہے ۔ گیم میں لگے بچوں کی سب سے ناپسندیدہ حرکت وہ ہوتی ہے کہ غلطی سے وائی فائی کا بٹن کوئی چھیڑ بیٹھے اور لمحہ وساعت کے لئے نیٹ آف ہوجائے ادھر نیٹ آف ادھر موٹ آف اور منہ لٹکنے لگتے ہیں وائی فائی اچھی چیز ہے یابری اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے سلمان گیلانی کا یہ شعر جسے ایک ناقد قاری نے اس فرمائش کے ساتھ ارسال کیا ہے کہ اس جناتی آلے کی شیطانی استعمال پر کالم لکھا جائے ۔
کسی شیطان کی اب کیا ضرورت ہے کہ ہر گھر میں
تباہی کیلئے بس ایک وائی فائی کافی ہے
شاعرانہ تخیل اور مزاح اپنی جگہ وائی فائی قطع نظر اس کے مثبت منفی استعمال کے واقعی ایک شیطانی مخلوق ہے کہ نظر آئے نہ آئے تباہی پھیرنے کو کافی ہے ہمارے اکنامکس کے بڑے قابل بنگالی پروفیسر ہوا کرتے تھے محمد بندہ علی خان وہ معاشیات جیسا خشک مضمون اس دلچسپی سے پڑھایا کرتے تھے کہ کوئی ان کی کلاس مس نہیں کرتا اور معاشیات کا مضمون بھی تمام تر خشکی کے باوجود کسی کو خشک نہیں بلکہ خوشگوار لگنے لگتا آج کے دور میں تو معاشیات پڑھنے اور معیشت دانوں کی ویسے بھی کچھ زیادہ ہی ضرورت ہے اسحاق ڈار بھی قابل چارٹرڈ اکائونٹس ضرور ہیں مگر معیشت دان نہیں پہلے گزرنے والے کونسے کمال کر گئے کہ ہم ان سے معیشت میں بہتری کی ا میدیں وابستہ کریں بڑے سخت حالات سے واسطہ پڑنا ہے ان حالات میں بس دعا ہی کی جا سکتی ہے ہمارے بنگالی پروفیسر استاد محترم پاکستانی معیشت کا جو نقشہ کھینچتے تھے اور حالات کی جو تصویر پیش کرتے تھے یقین نہیں آتا کہ ہم بالاخر اسی مقام پر کھڑے ہوئے ہیں کاش اس طرح کے اساتذہ کرام اور معیشت دانوں کی
سفارشات اور پیش بندی کے طریقہ کوئی اختیار کرتا تو آج آئی ایم ایف کے سامنے ناک نہ رگڑ رہے ہوتے یادش بخیر کیا لوگ تھے جو کہہ گئے تھے آج پتھر کی لکیر بنے سامنے ہے وہ اساتذہ تھے دانشور اور دور بین سیاستدنوں کی طرح مسائل کاذکر نہیں کرتے تھے بلکہ پیش بندی اور حل بھی ساتھ تجویز کرتے تھے آج کل تو بس سطحی سی باتیں اور بس۔ وہ صرف اکنامکس کے پروفیسر ہی نہیں تھے بلکہ ماہر نفسیات بھی بلا کے تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستانی قوم تعمیری سوچ نہیں رکھتی بلکہ تخریب کی طرف ہماری توجہ پہلے جاتی ہے میں اپنے بیٹے کو کھلونا لے کر دیتا ہوں تو پہلے وہ اس سے کھیلتا نہیںبلکہ زور لگا کے دیکھتا ہے کہ یہ ٹوٹتا کیسے ہے؟۔ اپنی قوم اور اپنے معاشرے کی اس ذہنی کیفیت کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو وائی فائی اور انٹرنیٹ کے مثبت کی جگہ منفی استعمال کوئی انہونی بات نہیں اس کا بدقسمتی سے منفی ہی استعمال زیادہ ہونے کا احتمال ہے ۔ جن کے گھر میں نیٹ نہ ہو اور پیکیج ناکافی یا ختم ہو تو پھر وائی فائی ڈھونڈ کر اس کا پاس ورڈ ہیک کرنے کے عمل ہی سے منفی ابتداء ہوتی ہے میں نے بہت سے لڑکوں کو دیکھا ہے کہ وہ بعض عمارتوں کے ارد گرد بلاوجہ بیٹھے ہوتے ہیں ابتداء میں تو سمجھ نہ سکی لیکن پھر بیٹے نے بتایا کہ وہ نظام کو اغواء یعنی ہیک کرکے نیٹ استعمال کر رہے ہوتے ہیں اس طرح کرنے والوں سے یہ توقع کم ہی رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ایسا کرکے کوئی اسائمنٹ کر رہے ہوں گے یہ تو برسبیل تذکرہ بات آگئی جن کو وائی فائی کی سہولت میسر ہے وہ کونسا اس کا مثبت استعمال کر رہے ہوتے ہیں کیا بچے بچیاں بس فضول گیمز اور نجانے کون کونسی سائٹس پر جارہے ہوتے ہیں اور کیا کیادیکھ رہے ہوتے ہیں یہ میں نے بچے بچیوں کو ایسے ہی الزام دیا ورنہ سنجیدہ سے سنجیدہ لوگ بھی اس شیطانی دنیا میں بہک کر گمراہ ہو رہے ہوتے ہیں قربان جائوں دین اسلام پر اور احادیث مبارکہ پر غور کریں تو واقعی ہی اسلام تاقیامت کا دین ہے جس میں ہرچیز کا احاطہ کیا گیا ہوتا ہے ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق انسان کے متقی وپرہیزگار ہونے کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ وہ خلوت میں تقویٰ دار ہو لوگوں کے سامنے سفید ریش مبارک نماز اور مسجدجانا بہت اچھی بات اور نیکی ہے لیکن اگراس حاجی کی خلوت میں خوف خدا نہیں تو اسے متقی ماننا مشکل ہو گا۔
واقعی سلمان گیلانی نے بہت خوب کہا ہے کہ کسی شیطان کی اب کیا ضرورت ہے کہ اب ہر گھر میں تباہی کے لئے بس ایک وائی فائی کافی ہے ۔ میں نئی نسل کو بھی الزام نہیں دوں گی کہ ہم نے ماحول ہی ان کو ایسا بنا کر دیا ہے اب پنگھوڑے میں روتے بچوں کو ماں سیل فون پر کچھ لگا کر دے کر چپ کرا کے خود دوسرے سیل فون پر مستغرق ہو جائیں تو بچے یہی سیکھیں گے نا اور کچھ نہیں تو کم از کم وہ نیٹ کے دیوانے ضرور ہوں گے ۔ میرے بیٹے ہشام کا ایک دوست ہے ارمغان ہشام اور وہ کھیلتے کم اور نیٹ زیادہ دیکھتے تھے وہ تو بھلا ہو کہ دونوں کو فٹبال اور فٹسال کا چسکا لگ گیا تو گرائونڈ اور ورزش کی طرف متوجہ ہوئے پھر ایسے تعلیمی ادارے میں گئے کہ وہاں پر دن بھر اور رات دیر تک ان کو فرصت ہی نہیں ملتی اس وقت مجھے بڑی خوشی ہوئی جب دو ماہ بعد گھر آئے تو آئی فون کی سکرین بند تھی اور ان کو محفل میں بیٹھ کر باتیں کرنے کا ہی نہیں بلکہ فون کے درست استعمال کا بھی سلیقہ آگیا تھا۔ اس ضمن میں یقینا ہم ماں باپ سے زیادہ تعلیمی اداروں کا بڑا کردار ہے کہ وہ نیٹ کے دیوانے بچوں کو اصلاح کا راستہ دکھائیں اور ان کو اس کی اہمیت منفی و مثبت استعمال سکھائیں۔ میرے خیال میں وائی فائی شیطانی چرخہ اور آلہ ضرور ہے مگر یہ ان لوگوں کے لئے جو اس کا درست استعمال نہیں کرتے ۔ ٹھیک ہے وقت ضائع اس پر ہر کوئی کرتا ہے لیکن اگر اس کا مثبت استعمال کسی کو آئے تو علم بھی ہے اور عصری و دینی علم اور مسائل سبھی کا مطالعہ اور آن لائن کام اور فری لانس روزگار ہم خرما و ہم ثواب۔بات وہی کہ اس کا استعمال منفی نہیں مثبت کیجئے یہ از خود نہ منفی ہے نہ مثبت۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''