دہشت گردی کی روک تھام ۔ اہم رابطے

پاکستان نے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے افغان حکام سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کرکے اس حوالے سے وفد کابل اور ایران بھیجنے کا عندیہ دیا ہے ‘وزیرمملکت فیصل کریم کنڈی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ان کی قیادت میں ایک وفد افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ سے گفت و شنید کے لئے جائے گا’ انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اپنی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دیں ‘ ادھر کراچی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق علمائے اہل سنت نے قرار دیا ہے کہ پاکستان میں خود کش حملوں سمیت دہشت گردی کی ساری کارروائیاں قطعی حرام ‘ اسلام دشمنی اور انسانیت دشمنی ہیں’ دوسری جانب پولیس لائنز حملے کے سلسلے میں تفتیش میں اہم پیش رفت کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد جہاں ایک طرف موٹرسائیکل کے خریدار کی معلومات مل گئی ہیں بلکہ ایک خاتون کے کردار کی تفتیش بھی کی جارہی ہے تو دوسری طرف صوبے میں مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈائون کی خبریں سامنے آنے کے بعد افغانستان میں ٹی ٹی پی جنگجوئوں کی بے دخلی کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا ہے ‘پشاور پولیس لائنز پر خود کش حملے میں سو سے زائد افراد کی شادت کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ افغانستان کے اندر بھی اس واقعہ پر بحث کی جارہی ہے ‘ جس کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ افغان نوجوان اور علمائے کرام پولیس لائنز مسجد پر ہونے والے خود کش حملے کی نہ صرف مذمت کر رہے ہیں بلکہ اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ اس حملے کے بعد پاکستان میں موجود لاکھوں افغان مہاجرین کے لئے مشکلات پیش آسکتی ہیں ‘ اس لئے افغان سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی جنگجوئوں کو بے دخل کیا جانا چاہئے ۔ جہاں تک افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ سے پاکستانی وفد کی ملاقات اور ان سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات روکنے کے حوالے سے تعاون کا تعلق ہے ایسی کسی بھی سطح پر ہونے والے اقدامات کی حوصلہ افزائی قومی سطح پر ہونی چاہئے اور زندگی کے ہر شعبے کی جانب سے ان کوششوں کو سراہا جاناچاہئے ‘ تاہم یہ کوششیں کہاں تک کامیاب ہو سکیں گی اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ‘ اس لئے کہ ماضی میں تحریک طالبان افغانستان کی صفوں میں ہمیشہ منفی جذبات کا اظہار ہی کیا گیا ہے ‘اور ابھی حال ہی میں تحریک طالبان کی جانب سے علمائے کرام کے نام ایک کھلا خط جاری کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لئے چند سوالات کئے تھے ‘ جس پر مفتی تقی عثمانی نے بڑے دو ٹوک انداز میں جواب دے کر پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو بلا جواز قرار دیاتھا لیکن اس کے باجود ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں ‘ اب علمائے اہل سنت کی جانب سے پاکستان میں خود کش حملوں سمیت دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو حرام قرار دیئے جانے کے بعد جولوگ اس حوالے سے منفی طرزعمل اختیار کئے ہوئے ہیں وہ ضرور اس پر غور کرتے ہوئے اپنا طرز عمل درست اور اپنی راہ سیدھی کرنے پرتوجہ دیں گے ‘ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر بھی کچھ سوال گردش کر رہے ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو فروغ دے رہے ہیں وہ خطے کے دوسرے ممالک میں کیوں اپنی سررگرمیاں نہیں کر رہے اور پاکستان کے عوام نے آخر کیا گناہ کیا ہے کہ یہ دہشت گرد آئے روز خون خرابہ کرکے لاشوں کے انبارلگا دیے ہیں؟ بہرحال اس حوالے سے افغانستان کے نوجوان طبقے اور علمائے کرام کی صفوں میں اس حوالے سے جو تشویش ابھری ہے اسے اگرچہ اس خوف کا نتیجہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈائون اوران کو ڈی پورٹ کیا جائے گا اور جس کی طرف سرکاری سطح پر پہلے ہی اشارے دیئے جا چکے ہیں تاہم پھر بھی اسے حوصلہ افزاء صورتحال قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے افغانستان کے طول وعرض میں جس طرح پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جاتا تھا اس کا سوشل میڈیا ایپس پر موجود ویڈیوز سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ علمائے کرام کے واضح موقف کے بعد اب نہ صرف ان لوگوں کو جو پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں ‘ اپنے منفی طرز عمل سے رجوع کرنا چاہئے بلکہ تحریک طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ سے بھی بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی روک تھام کریں اور پاک افغان برادرانہ تعلقات میں کسی بھی قسم کی دراڑ پیدا کرنے کی حوصلہ شکنی کرنے پر توجہ دیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی