دل دہلا دینے والی دو خبریں

اٹلی اور لیبیا کے سمندر میں ایک اور کشتی طوفاں کی موجوں کی زد میں آکر ڈوب گئی اور ایسی بدقسمت کشتیوں کی طرح اس بار بھی پانیوں کی نذر ہونے والوں میں چالیس پاکستانی تھے ۔جن کا تعلق جہلم ‘کھاریاں اور بھمبر سے تھا ۔آئے روز اس طرح کے حادثات رونما ہوتے ہیں اور ان میں اکثر لوگوں کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے ۔کبھی ضرورتوں کے مارے لوگ یونان اور ترکی کی سرحدوں پر چیل کوئوں کے پیٹ کا ایندھن بنتے ہیں تو کبھی کسی سمندر میں ڈوب کر مچھلیوں کی خوراک بنتے ہیں ۔ کچھ کی لاشیں واپس گھروں تک پہنچتی ہیں مگر اکثر کے اہل خانہ تمام عمر انتظار کی آگ میں جلتے اور جھلستے رہتے ہیں ۔اس واقعے میں اٹھائیس پاکستانیوں کی لاشیں مل گئی ہیں جبکہ بارہ کی لاشیں تاحال نہیں ملیں ۔برطانوی میڈیا کے مطابق کشتی میں ایک سوبیس افراد سوار تھے جن میں افغانستان پاکستان اور صومالیہ کے باشندے سوار تھے ۔یہ لوگ ترکیہ سے یونان کی طرف جا رہے تھے ۔بے روزگاری ،مہنگائی اور ترقی کے مواقع نہ ہونے کے باعث لوگ یہ پرخطر فیصلہ کرتے ہیں اور اکثر ہی حالات کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں ۔یہ افراد نہیں ہوتے بلکہ اچھے مستقبل کے خواب اور اہل خانہ کی خواہشات ہوتی ہیں جو گھروں کے کچھ افراد کو اس انداز کے فیصلے کرگزرتے ہیں۔پاکستانی نوجوان حالات سے تنگ آکر یہ پُر خطر فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔حد تو یہ کہ اس طرح کے خوفناک حادثات کی خبریں اور ان راہوں کی مشکلات کی کہانیاں بھی نوجوانوں کو اس وادیٔ مرگ میں قدم رکھنے سے باز نہیں رکھ سکتیں ۔بہت سے چشم دید گواہ سوشل میڈیاپر رورو کر نوجوانوں سے دردمندانہ اپیلیں کرتے نظر آتے ہیںاس کے باوجود لوگوںپر اس کا اثر نہیں ہوتا ۔سمندر میں غرقاب ہونے والی اس
کشتی کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جو امدادی سرگرمیوں میں مصروف ایک ہیلی کاپٹرسے بنائی گئی ہے ۔اس وڈیو میں کشتی طوفان کی موجوں کے رحم وکرم پر ہے اور ایک مقام پر پہنچ کر وہ سمندر کی بپھری ہوئی موجوں کی زد میں آکر اُلٹ جاتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ وڈیو بھی لوگوں کے دل ودماغ کو متاثر نہیں کر سکے گی کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی بہت سے وڈیوز منظر عام پر آتی رہیں مگر اس طرح کے حادثات کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں ۔اس میں ملک کے معاشی حالات کا گہرا دخل ہے ۔پاکستان عملی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہوچکا ہے ۔ کاروباربند ہورہا ہے اور صنعت کا پہیہ جام ہو رہا ہے ۔ایسے میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے ۔اپنے معاشی حالات کو بہتر کرنے کی امید پر لوگ موت کے اس سفر پر نکلنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔انسانی سمگلروں کا تعلق اپنے کاروبار سے ہوتا ہے وہ ضرورت مندوں سے رقوم وصول کرکے جو اکثر اوقات قرض سے جمع کی گئی ہوتی ہے تمام معاملات سے بری الذمہ ہوتے ہیں۔نوجوان اپنے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں جان کی بازی ہا رجاتے ہیں اور اہل خانہ قرض کی دلدل میں دھنس کر رہ جاتے ہیں ۔بے رحم انسانی سمگلروں کے نیٹ ورکس کو توڑنے کی کوششیںابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں خود یورپی ممالک بھی اس عمل کو روک نہیں سکے ۔ حکومت پاکستان اور غیر حکومتی تنظیموں کو اس رجحان کے خلاف منظم مہم کا آغاز کرنا چاہئے زندگی کی اہمیت کا احساس اُجاگر کرنے چاہئے تاکہ یہ سلسلہ کسی حد تک رک سکے ۔چند دن قبل بلوچستان سے ایک دل دہلا دینے والی دوسری خبر نے سوشل میڈیا پراب تک اپنا قبضہ جمارکھا ہے ۔ یہ خبر ٹویٹر کی ٹاپ ٹرینڈ رہی اور پورا ملک اب بھی مظلومین کے لئے انصاف کا طالب اور متلاشی ہے ۔مبینہ طور پر ایک بلوچ سرداراور صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں مری قبیلے کے آٹھ مردوزن قید تھے جنہیں سردار کے کارندے انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں ۔اسی دوران ایک خاتون کی قرآن پاک ہاتھوں میں لئے ایک وڈیوکلپ چند دن پہلے منظر عام پر آیا جس میں خاتون قرآن ہر قسم کھا کر کہتی ہے کہ اسے سردار نے قید کر رکھا ہے اور اس کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اسے سردار کی قید سے آزادی دلائی جائے ۔چند ہی روز بعد خاتون اور اس کے دومقید بیٹوں کی لاشوں کی وڈیو سامنے آئی ۔جس کے بعد مری قبائل میں ہنگامے پھوٹ پڑے ۔خاتون کے شوہر نے اپنی بیوی اور دوبیٹوں کی ہلاکت کی تصدیق کی اور کہا کہ ابھی پانچ مزید افراد نجی جیل میں قید ہیں ۔اس شخص نے لاشیں مری قبیلے کے بڑوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔بلوچستان کی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کی ہے ۔بلوچستان میں ہونے والا یہ واقعہ ایک بار پھر ریاست کی رٹ اور قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی دگرگوں صورت حال کی قبیح تصویر بنا گیا ۔حالات کے ستائے ہوئے عوام کا احساس عدم تحفظ ایک بار پھر بڑھ گیا ۔ریاست جب اپنے شہریوں کے تحفظ میں
ناکام ہوتی ہے تو لوگوں کا قانون اور آئین سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے ۔لوگ بدلے اور ردعمل کا شکار ہوتے ہیںاور یوں قانون کو اپنے ہاتھ میںلینے کا رواج اور رجحان عام ہوتا ہے ۔سندھ اور بلوچستان میں نجی جیلوں کا رواج بہت پرانا ہے ۔زمانہ قدیم میں جب اس علاقے میں قبائلی نظام کام کر رہا تھا اس طرح کے رواج گوار ا تھا مگر فی زمانہ ریاستیں قانون اور آئین کے تحت کام کرتی ہیں اور آئینی ریاستوں میں گلی گلی عدالتیں لگائی جاتی ہیں نہ نجی جیلیں قائم کی جاتی ہیں ۔وہاں قانون اور انصاف کا پورا نظام ریاست کی عملداری میں کام کرتا ہے اور افراد اس نظام کے آگے سرینڈر کئے رہتے ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان میں آئین اور قانون ہونے کے باجود جاگیرداروں اور سرداروں نے ریاست کے اندر اپنی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں ۔آئے روز سندھ اور بلوچستان میں کسی فرد یا خاندان پر مظالم کی کہانی سامنے آتی ہے ۔ان علاقوں میں میڈیا کی رسائی نہ ہونے کے برابر ہے اور سول سوسائٹی کا تصور بھی نہیں اس لئے ظلم کی اکثر داستانیں صدا بصحرا ہو کر ہوائوں میں تحلیل ہو جاتی ہیں ۔جب بھی کوئی صحافی جان پر کھیل کر کسی سردار اور جاگیردار کے ظلم کی کہانی کو منظر عام پر لاتا ہے تو جان سے گزر جاتا ہے ۔سندھ میں کئی صحافیوں کو جرات مندانہ رپورٹنگ کی بنا پر جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔مراکز میں بیٹھے لوگ اس دنیا کا تصور نہیں کر سکتے جو اپنے باسیوں کے لئے دوزخ بنی ہوتی ہے ۔اس دنیا میں صرف طاقت اور طاقتور کی حاکمیت ہے یہاں آئین اور قانون کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے ۔بلوچستان کا یہ واقعہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان میں سٹیٹس کو ٹوٹ جانا چاہئے اور ظالم کی حیلوں بہانوں سے حمایت کرنے والے نظام ِ زر کی بساط لپیٹ کر سماجی انصاف پر مبنی نظام قائم ہونا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے