پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے سنگین جرائم

پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا یہ قصور ناقابل معافی ہے کہ انہوں نے لڑکھڑاتی اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا اور ان مسائل کی کالک اپنے چہروں پر مل لی جو تبدیلی سرکار کے پیدا کردہ ہیں۔ مثال کے طور پر آپ آئی ایم ایف والے عمران دور کے معاہدے کو ہی لے لیجئے اور آئی ایم ایف کے پاس جاتے وقت اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ویڈیو نیٹ سے تلاش کرکے سن لیجئے کہ وہ کیا ارشاد فرمارہے تھے۔ ان کے حامی یقینا آج بھی ان ارشادات کی تشریح کرتے ہوئے لمبی لمبی چھوڑیں گے۔ پی ڈی ایم اتحادیوں کا دوسرا جرم یہ ہے کہ اس حکومت نے سال بھر ہونے کو آیا مگر این ڈی ایم اے کا تھرڈ پارٹی اڈٹ نہیں کروایا۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ اس لئے بھی ضروری تھا کہ کورونا وبا میں ملی امداد میں سے کھربوں روپے کے گھپلے ہوئے تھے۔ گھپلوں کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ این ڈی ایم اے کے اس وقت کے سربراہ نے سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ کورونا کے ایک مریض پر 26لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔ ازخود نوٹس کی سماعت کرنے والے بنچ کی زبانیں تالو سے جالگیں۔ کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جنرل افضل سے پوچھ سکے۔ مائی باپ کیسے ایک مریض پر 26لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں ذرا سمجھایئے تو؟ پی ڈی ایم اتحادیوں کا تیسرا جرم یہ ہے کہ اس نے خود عمران خان کے اپنے دور میں سامنے آنے والے مالیاتی سکینڈلز پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی مثلا ان کے دور میں سامنے آنے والا ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے سکینڈل، اس سکینڈل کی وجہ سے ہی عمران خان نے اپنے وزیر صحت عامر کیانی کو وزارت سے ہٹایا چند دنوں بعد پارٹی میں اہم عہدہ دیا پھر دوبارہ وزیر بنادیا۔ دوسرا سکینڈل راولپنڈی رنگ روڈ کا تھا زلفی بخاری اس سکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہوئے تھے۔ اس سکینڈل کا ایک کردار آج کل لندن میں مقیم ہے اور سوشل میڈیا پر خاموش مجاہدین کی بھیجی خبروں سے اپنے یوٹیوب چینل اور ٹیوٹر اکائونٹ کا پیٹ بھرتا ہے۔ تیسرا سکینڈل گندم بیرون ملک فروخت کرنے اور پھر ملک میں کمی ہونے پر مہنگے داموں بیرون ملک سے منگوانے کا تھا۔ پانچواں چینی کا سکینڈل۔ چھٹا بحریہ ٹائون والے ملک ریاض کے لندن میں ضبط شدہ سرمائے کو سپریم کورٹ کے جرمانے میں ایڈجسٹ کرواکے گوجر خان میں القادر یونیورسٹی کے لئے رقبہ لینے کا ہے جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ ٹرسٹی ہیں۔ ایک بڑا سکینڈل پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مالیاتی امور کے حوالے سے ہے۔ عمران خان نے اپنے خالہ زاد امریکہ میں مقیم اسی بیاسی
سالہ ڈاکٹر نوشیروان برکی کو ہسپتال کا سربراہ بنایا ہوا تھا موصوف سال میں کتنے دن امریکہ سے پشاور آتے اور دس برسوں میں ان کی کل حاضریاں کتنی ہیں ان دس برسوں، چلیں پونے دس برس کہہ لیجئے، کے دوران انہوں نے کل حق خدمت کیا وصول کیا۔ اس بارے اگر مزید کچھ جاننا چاہتے ہیں تو پشاور کے معروف صحافی عرفان خان کی رپورٹ سوشل میڈیا پر تلاش کرکے پڑھ لیجئے۔ توشہ خان اور ٹیریان خان کیس الگ ہیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں کیس سیاسی انتقام پر مبنی ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ توشہ خانہ والے معاملے میں عمران خان کہتے ہیں کہ جو چیزیں میں نے خریدیں وہ رکھوں یا بیچوں کسی کو کیا۔ یہاں تک تو بات درست ہے مگر جو چیزیں ان کی اہلیہ ظاہر کئے بغیر لے گئیں ان کا کیا ہوگا۔ اسی طرح دیگر معاملات کے ساتھ گھریلو کاروباری خاتون علیمہ خان کو عدالتی حکم پر دی گئی رعایت والا معاملہ ازسرنو دیکھنے کی ضرورت تھی۔ پنجاب کے سابق وزیراعلی کے ایک سیکرٹری جو کے ٹی کے نام سے بیوروکریسی میں معروف ہیں کے معاملات پر اب تک کیوں
گرفت نہیں کی گئی۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا یہ جرم بھی ناقابل معافی ہے کہ ایک شخص جو سنگین مقدمات میں ملوث ہے وہ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر بھاشن دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اتنا لاڈلہ پن کیوں؟ کیوں اس شخص سے بھی عام ملزموں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب نئی حکومت تشکیل دی تھی تو فوری طور پر ایک قومی کمیشن بناتے جو 2018 کے عام انتخابات میں باجوہ رجیم کی مینجمنٹ کو عوام کے سامنے لاتا۔ اس سنگین جرم کا کیا کرنا ہے جو اتحادی حکومت سے سرزد ہوا کہ اس نے وعدے کے باوجود عمران خان کے دور میں آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کی دستاویزات کو پارلیمنٹ میں پیش کیا نہ عوام کے سامنے لاپائی۔ کچھ جرائم اور بھی ہیں مثلا اسی پی ڈی ایم کے رہنما ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اگر پڑوسیوں سے آزادانہ تجارت کا اصول اپنایا جائے تو مہنگائی میں فوری طورپر 40فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔ گیارہ ماہ میں پڑوسیوں سے آزادانہ تجارت کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی؟ ان سارے جرائم کی سادہ اور ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ عمران خان کو مسلط کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا گیا۔ کیوں دیا محفوظ راستہ؟ جوابا حب الوطنی اور ریاست کے بھاشن سنانے کی بجائے پوراسچ بولنے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم مہنگائی کیوں کم نہیں کرپائی۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کے جرائم گنوانے کی تمہید طویل ہوگئی۔ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادی سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں ان سے تو یہ تک نہیں ہوا کہ وہ عدالتی نظام میں اصلاحات لے آتے لیکن کیا صرف پی ڈی ایم اور اتحادی ہی مجرم ہیں؟ ان کے جرائم بھی ہیں اور سنگین نوعیت کے ہیں۔ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو محفوظ راستہ دینے کا مجرم کون ہے یا کون کون ہیں؟ مکرر عرض کروں یہ سیاست پر ریاست بچانے کی قربانی والا بھاشن اب اپنا اثر کھوچکا ہے اس کی مزید تبلیغ نہ کی جائے تو اچھا ہے۔ ویسے اگر پی ڈی ایم اور اتحادی سیاست پر ریاست کو ترجیح نہ دیتے تو کون سا قیامت ٹوٹ پڑنا تھی؟ زیادہ سے زیادہ کیا ہونا تھا یہی جو آج ہورہا ہے یا اس سے کچھ زیادہ سنگین ہوتا؟ کیااس ریاست نے معروف معنوں میں شفیق ماں کا حق ادا کرنے کی کبھی زحمت کی۔ یہ ریاست تو اپنے ہی بچوں کو اپنا رزق بناتی آرہی ہے۔ پی ڈی ایم اور اتحادی پچھلے سال اپریل سے قبل تسلی دیا کرتے تھے کہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے ایک قومی پارلیمانی کمیشن بنائیں گے۔ گیارہ ماہ گزرنے میں چند دن ہیں کہاں ہے وہ قومی کمیشن؟ کیوں بلوچستان میں آتش فشاں آج بھی سلگ رہا ہے؟ پی ڈی ایم اور اتحادیوں میں تو اتنی جرات نہیں کہ ایک فین کلب کو مختلف اداروں سے ملتی سہولت کاری کو ہی روک سکیں۔ یہ تو اس بات کو بھی عوام کے سامنے نہیں رکھ سکتے کہ پچھلی حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ انتخابات (2023 والے) نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔ پھر عمران خان دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے نئی مردم شماری پر انتخابات کے فیصلے سے بھاگ کیوں نکلے؟ پی ڈی ایم والے کمزوریوں، فیصلہ سازی سے محرومی اور اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دینے پر عوام سے معافی مانگیں اور مستعفی ہوجائیں کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی ویسے اس سے زیادہ اور کیا قیامتیں ٹوٹیں گی بدنصیبوں پر؟۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے