” دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی”

پاکستان اس وقت دنیا میں ایک تماشا گاہ کا منظر پیش کر رہا ہے، دنیا بھر کا میڈیا پاکستان کے حالات کی متوازن تصویر دکھا کر بحران کی سنگینی کا احساس دلا رہا ہے مگر پاکستان کا میڈیا مصنوعی بیانیہ سازی میں مصروف اور مگن ہے، میڈیا کا ایک بڑا حصہ آج بھی مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے اور سرکاری وسائل پر مخصوص لوگوں سے مل کر آنے کے بعد ”مشرقی پاکستان میں محبت کا زمزم بہہ رہا ہے”جیسے افسانوی بیانیے گھڑ کر دل خوش کر رہا ہے جس حصے میں بغاوت کی آگ بھڑک کر چند ماہ میں ہی سب کچھ بھسم کر دیتی ہے اس میں محبت کا زمزم بہتے نظر آنا پاکستانی میڈیا کا ہی کمال تھا، عہدہ سنبھالتے ہی ہمارے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جم کر عالمی پبلک ریلیشننگ میں مصروف رہے، اب انہیں مغربی میڈیا میں جابجا اس سوال کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا حلیہ کیوں بگڑنے جا رہا ہے اور ملک کے مقبول سیاسی لیڈر کو سیاسی اور جمہوری سرگرمیوں سے روک کر پابندیوں کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے، عمران خان پاکستانی عوام کے بعد مغربی میڈیا کو بھی اپنی مظلومیت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں، بلاول بھٹو کا ایک مغربی ٹی وی سٹوڈیو میں بیٹھ کر دیئے جانے والے انٹرویو کا وڈیو کلپ گردش میں ہے جس میں پاکستان کے موجودہ حالات کے حوالے سے ان کو ایک تلخ سوال کا سامنا کر نا پڑا تو جواب میں بلاول مسٹر خان مسٹر خان ہی دہراتے سمجھ جاتے ہیں خود اینکر کو مزید وضاحت کے لئے سوال کو دہرانا پڑ رہا ہے، اب مغرب عمران خان کی تسبیح اور قمیض شلوار کو بھول کر انہیں پاکستان میں جمہوریت کے لئے لڑنے والے لیڈر کے طور پر دیکھنے لگا ہے، ایسے میں امریکہ کے سابق سفیر اور سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے بحران پر نہ صرف کھل کر لب کشائی کی ہے بلکہ اس بحران کے باقاعدہ حل کے لئے دو تجاویز بھی پیش کی ہیں، زلمے خلیل زاد نے کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت سیاسی معاشی اور سکیورٹی جیسے تین بڑے بحرانوںکا سامنا ہے، عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری بحران مزید سنگین ہوجائے گا، سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنا ،پھانسی پر لٹکانا یا قتل کرنا غلط روش ہے، انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کے بحران کے حل کے لئے دو تجاویز دیتا ہوں، پہلی یہ کہ جون میں قومی سطح پر انتخابات کا اعلان کیا جائے تاکہ تباہی سے بچاجائے۔ دوئم یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک کو بچانے اور استحکام سلامتی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے مل بیٹھ کر مسائل کی نشاندہی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں جو بھی الیکشن میں کامیاب ہو اسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہوگا اس کو کام کرنے دیا جائے۔ زلمے خلیل زاد کی اس ٹوئٹر کا ٹویٹر کے ذریعے ہی جواب پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے دیا کہ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، پاکستان کو سیاسی معاشی سطح پر چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کسی مشورے یا لیکچر کی ضرورت نہیں۔ اصولی طور پر ترجمان دفتر خارجہ کی بات سو فیصد درست ہے کہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہئے مگر اس کا کیا کیجئے کہ پاکستان کے رواں بحران میں ہم اس اُلجھن کا شکار رہے ہیں کہ امریکہ سے آنے والا ڈونلڈ لو کا
پیغام سازش تھا یا مداخلت؟ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان مجموعی طور پر ایسی بیرونی مداخلت کے خلاف متحد اور یک زبان نہیں جو مداخلت ایک فریق کے حق میں جاتی ہو اس پر متعلقہ فریق خوشی کے شادیانے بجاتا ہے اور جو مداخلت اس فریق کے خلاف جاتی ہے اس پر صف ماتم بچھ جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی راہنمائوں کے پاکستان کی اندرونی صورت حال پر تبصرے پسند و ناپسند کے اپنے اپنے ترازو پر تلتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اس وقت پاکستان کئی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اور ان بحرانوں سے نکلنے کے لئے جس حکمت دانش اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ ریاست نان ایشوز میں الجھی ہوئی ہے اور عمران خان کی صورت میں فرد واحد کو اپنے اعصاب پر سوار کر لیا گیا ہے، ملک کو عمران خان سے زیادہ بڑے مسائل کا سامنا ہے جن میں سب سے اہم معاشی بحران ہے، آئی ایم ایف ناک سے لکیریں نکلوانے کے باوجود معاشی پیکیج فراہم نہیں کر رہا، حکومت آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت عوام کو مہنگائی بم کا شکار بنا چکی ہے، پٹرول، گیس اور بجلی قیمتوں میں اضافے سے عوام کا جو کچومر نکالنا مقصود تھا ہو چکا ہے، اس کے باوجود قرض کی قسط نہیں مل رہی، سکیورٹی کی صورت حال بھی چنداں اچھی نہیں۔ امریکہ دہشت گردی کے نام پر جنگ کے نام پر پاکستان کو ایناکونڈا کی طرح اپنے حصار میں لے چکا ہے اور اب ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے، کیا عجب اتفاق ہے کہ مشرف دور کی طرح ڈمہ ڈولہ مدرسے کے بچوں کی طرح اس بار بھی ڈرون حملے کا پہلا شکار دومعصوم بچے ہی ہیں، جن کی خون آلودلاشوں کی تصویریں ہر طرف گردش کر رہی ہیں، اس دور میں بھی ٹی ٹی پی نے ڈرون کے ردعمل کے نام پر پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا، اب امریکی ڈرون حملے اس دہشت گردی کو نیا جواز فراہم کر سکتے ہیں، معاشی اور سکیورٹی بحران ہی کیا کم تھے ملک کا سیاسی بحران بھی روز بروز گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور میں جو مارکٹائی کا پرتشدد کھیل چل رہا ہے کسی معمولی سے لغزش اور غفلت سے خطرناک رخ بھی اختیار کر سکتا ہے اور پاکستان کے سیاسی کینوس میں خونیں رنگ ابھرنے سے سیاست میں مزید کشیدگی درآنے کے امکانات موجود ہیں، ایسا نہ ہو اکہ حالات کو مینج اور کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے، امریکہ کے ایک باخبر انسان اور ڈپلومیٹ کے طور پر زلمے خلیل زاد وہاں کے منصوبوں سے بھی آگاہ اور باخبر ہوں گے ۔ زلمے خلیل زاد جنوبی افریقہ اور لاطینی امریکہ سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ مزار شریف میں پیدا ہونے اور کابل میں پروان چڑھنے والے پشتون ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی حکمت عملی کے نتیجے میں بڑھنے والے بحران کو کنٹرول کرنے کے لئے یا مخصوص نتائج کے لئے امریکہ نے پلان بی بھی بنا رکھا ہوگا، اس لحاظ سے خلیل زاد کی باتوں کو ہوا میں اُڑانا مناسب نہ ہوگا۔ ویسے اس بیان سے زلمے خلیل زاد کا نام ہٹا کر کسی فرضی عبدالرشید ،محمد نذیر کا نام ہی لگا کر پڑھا جائے تو یہ تاریخ کا ہی سبق بنتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کو جیل میں ڈال کر اور ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے کر کونسا تیر چلا لیا گیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ غیروں کو مداخلت کا موقع دیئے بغیر پاکستان کے مسائل اور چیلنجز کو اپنی بنیاد پر اور اپنے قومی مفاد میں حل کرنے کا راستہ اختیا رکیا جائے، پاکستان کے حالات پر آج ہر طرف سے تبصرے ہو رہے ہیں تو یہ موقع خود پاکستان کے حکمران طبقات نے فراہم کیا ہے کیونکہ جب ملک انتشار کا شکار ہوتے ہیں تو پھر لوگوں کو ایسے مواقع میسر آتے ہیں بقول شاعر
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے

مزید پڑھیں:  پاک ایران گیس معاہدہ