وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا دورہ بھارت

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت اور وہاں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ دورہ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے نہیں ہے’ اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفننگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کے وزیر خارجہ وہاں جا رہے ہیں، اس موقع پر منفی بیانات پاکستان کو ایسے کسی اجلاس میں شرکت سے باز نہیں رکھ سکتے جس میں پاکستان برابر کا رکن ہے’ ترجمان نے کہا کہ ہندوستان کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں معاون خصوصی ملک احمد خان نے ویڈیو لنک پر پاکستان کی نمائندگی کی’ ملک احمد خان نے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جگہ اجلاس میں شرکت کی’ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ پر پاکستان غیر جانبدار پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے’ ہم نے اس دوران کسی فریق کو اسلحہ فراہم نہیں کیا’ اس تنازع سے قبل یوکرین سے قریبی دفاعی تعلقات رہے ہیں’ انہوں نے کہا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ جاری ہے’ امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی شرکت کا سوال ہے تو اصولاً اس پر منفی تبصرے کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ یہ تنظیم علاقے کے ممالک کے درمیان مختلف معاملات اور مسائل کو حل کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے اور اس کے اجلاس تنظیم کے رکن ممالک کی باہمی مشاورت سے منعقد کئے جاتے ہیں جبکہ رکن ممالک کے متعلقہ وزراء اور دیگر عملے کی شرکت کا کسی بھی دوسرے مسئلے یا باہمی تعلقات کے حوالے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا’ اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان وزیر خارجہ کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا کسی بھی طور پاک بھارت تعلقات کے ساتھ کوئی لنک ہے’ ہم سمجھتے ہیں کہ ترجمان دفتر خارجہ کی وضاحت کے بعد اب یہ بات واضح ہو چکی ہے اور جو لوگ اس حوالے سے منفی بیان بازی کر رہے ہیں انہیں اپنی سوچ سے رجوع کرلینا چاہئے جبکہ دراصل دونوں جانب (پاکستان اور بھارت) اسی قسم کے رویوں کی وجہ سے ہمسایہ ملکوں کے تعلقات اب تک معمول پرآنے میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں’ خصوصاً ادویات کے لئے خام مال کی ترسیل ‘سبزیوں اور فروٹس کی تجارت سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوسکتا ہے اور بھارت سے سستی اشیاء آسانی کے ساتھ درآمد کرکے ہم ملک میں مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہمارے رویئے انسان دوست ہوں۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن