اِس دو ر کے پھولوں میں کہاں پیار کی شبنم ؟

سال کے چار موسموں میں موسم بہار موسموں کا سردارہے موسم بہار ایک ایسا موسم ہے جس میں چرند پرند ، نباتات اور حشرات سب خوش ہوتے ہیں ۔موسِم بہار سے سب سے زیادہ شعرالطف اندوز ہوتے ہیں صوفیااور اولیا کرام روحانی فیض حاصل کرتے ہیں سب سے زیادہ لطف اِس زرین موسم سے عاشق مزاج لوگ ا ٹھا تے ہیں کہتے ہیں کہ شعرا اور عاشق مزاج لوگوں کا دوران خون بہار میں تیز ہوجاتا ہے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے پر طبع آزمائی کی ہے سیاح بھی بے نفس طبقہ ہوتاہے اور موسمِ بہار کی رنگینیوں سے محظوظ ہوتے ہیں ۔ سیلانی طبعیت کے لوگ موسم بہار میں مست ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ
مستوں پہ انگلیاں نہ اٹھا بہار میں
عاشق مزاج لوگ پھولوں میں محبوب کا حسن نزاکت اور رنگینی تلاش کرتے ہیں ۔ عاشقوں کا عقیدہ ہے کہ بلبل پھول کے عشق میں مبتلا ہے اور عاشق مزاج لوگ اپنے محبوب کے حسن اور بے وفائی کے گیت گاتے ہیں ۔
کوچہ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یہاں اپنے اپنے پیراہن میں مست ہے۔
دنیا کی معروف زبانوں میں خوشحال خان خٹک پھولوں کے سب سے بڑے شیدائی شاعر گزرے ہیں آپ کی دیوان کے ہر صفحے پر پھولوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے خوشحال خان خٹک نے اپنی لازوال شاعری میں ہندوستان میں پائے جانے والے تمام پھولوں کا ذکر کیا ہے خوشحال خٹک نسوانی حسن کے زبردست شیدائی تھے۔ اپنی محبوبہ کا حسن انہوں نے ہر پھول میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
دگلو نو قدر چازدہ
د بلبل یا د بو نرازدہ
پہ غوغا کا ندی بلبلو
وخت بہ تل نہ وی د گلو
دا گلونہ مسافر دی
کال بہ تیر کہ پہ راتللو
پختوانخوا کا پورا خطہ پھولوں کے لئے مشہور تھا صرف پشاور پھولوں کا شہر نہ تھا بلکہ پختونخوا کا ہر قریہ پھولوں کی کثرت کی وجہ سے جنت نظیرتھا اور اس خطے کے ہر باسی کا دماغ پھولوں کی خوشبوسے معطر رہتا تھا۔
اے قریہ جمیل مقدر کی بات ہے
دولت تجھے ملی تھی کھو دیا اسے
یہ اس وقت کی بات ہے جب نوٹوں کی خوشبو گھر گھر نہیں پہنچی تھی ۔ اِ نسان کے دل میں محبت کے جذبات موجزن تھے ۔ نغرت کی جگہ محبت کی فراوانی تھی موسم بہار میں انسان خدا کی معرفت حاصل کرتا تھا رنگا رنگ پھول اب ناپید ہوتے جارہے ہیں ۔60کے عشرے تک ہمارا خطہ جنت نظیر تھا مجھے جب اپنے بچپن اور لڑ کین کے دِن یاد آتے ہیں تو اقبال کا یہ شعر پڑھتا ہوں ۔
آتا ہے یاد مجھ کو وہ گزرا ہوازمانہ
وہ باغ کی بہار یں وہ سب کا چہچہانا
اگلے وقتوں میں پھاگن اور چیت کے مہینوں میں کثرت سے بارشیں برستی تھیں اِسلئے تو شاعر نے کہا تھا۔
اے ابر بہاری آج اتنا برس کہ وہ جانہ سکے لواغر کے جنگلات میں گجلیر نام کا ایک پھولدار پودا کثرت سے پیدا ہوتا تھا یہ تین چار گز اونچا درخت تھا جس پر زردرنگ کا پھول اگتا تھا یہ جنگلات گجلیر کے پودوں سے ڈھکے رہتے تھے اس پھول کی وجہ سے پورا جنگل ایک منفرداور ایمان افروز منظر پیش کرتا تھا۔ بلبلوں کی میٹھی آوازیں ہو تی تھیں اور اِن پھولوں کی خوشبو بے اختیار اِنسان کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔
دلربا دلکشا و دلپذیر
تھا یہ منظر بے مثال و بے نظیر
گجلیر اب عنقا ہیں کیونکہ فسادی انسانوں نے جنگلات کو نذرآتش کردیا۔ اقبال کی شاعری میں وہ مناظر اِس طرح بیان ہوئے ہیں ۔
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کو ہ ودمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں پاپریاں قطا ر اندرقطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرا ہن
حسن بے پرواکو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیار ے تو شہرا چھے کہ بن
شیخ سعدی نے اپنی مشہور زِمانہ کتاب گلستان موسم بہار میں سیاحت کرتے ہوئے ایک ایسے باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی جس میں گلاب ، ریحان ،سنبل ، ضمیران اور دیگررنگارنگ پھولوں کی کثرت تھی ۔ رحمان بابا کے زمانے میں پشاور اور مضافات میں پھولوں کی کثرت تھی یہی پھول اور باغات انسان کو حقیقی خوشی بخشتے تھے اور ان پھولوں ،باغات اور بہار کے اثرات رحمان بابا کے دیوان میں آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں رحمان بابا کی دیوان کی تاز گی تا قیامت بر قرار رہیگی
بلبلان ورتہ نعرے کوی رحمانہ
دبہار گلونہ شوی دی کہ نہ دی
رحمان بابا درویش تھے ۔ ولی اللہ تھے یہ بلند مقام یہ مرتبہ اور یہ حیات جاوید بابا کو پھولوں سے شدید محبت کی وجہ سے ملا تھا
ہر بہار لرہ خزان پہ جہان شتہ دے
خزان نہ لری بہارددرویشانو
رحمان بابا کا تعلق شہری ماحول سے تھا اورخوشحال خٹک دیہاتی ماحول سے تعلق رکھتے تھے خوشحال خٹک نے دیہاتی ماحول کے پھولوں کی تعریف کی ہے۔
گل شوے د خوڑے دبنڑ پلوسے
خوشحالہ ولے بے گشتہ اوسے
پھول پھول ہوتا ہے خواہ وہ جنگلی یا صحرائی پھول ہویا شہر کے مضافات میں اگنے والا پھول ۔ خوشحال خٹک کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ بہار کے موسم میں کشمیر کابل یا سوات جانے کی ضرورت نہیں بلکہ میرا اپنا گائوں کشمیر جنت نظیر ہے ۔
اقبال اِسلئے دنیا کے عظیم شاعروں میں شمار ہوا کہ اس کا دماغ پھولوں کی خوشبو سے معطر تھا
پھربادبہار آئی اقبال غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گل ہو گل ہے تو گلستاں ہو
پھولو ں اور بہار سے شدید محبت کی وجہ سے علامہ اقبال کا فارسی کلام آفاتی کلام بن گیا۔ پھول کی خوشبو اور رنگینی تمام انسانیت کی مشترکہ میراث ہے بقولِ اقبال
بیا ساقی نوائے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد ، نگار آمدنگار آمدقرا ر آمد
کشیدابر بہاری اندروادی و صحرا
صدائے آبشاراں از فراز کو ہسار آمد
ہمارے بزرگوں کی تعلیم یہ تھی کہ
کر د گلو کڑہ چہ سیمہ دے گلزارشی
ازغی مہ کرہ پہ پخو کے بہ دے خارشی
آج ہم اپنے بزرگوں کی تعلیم کے برعکس پھولوں کی جگہ کا نٹے بور ہے ہیں۔ پھول محبت کی نشانی ہے اور کانٹا نفرت کی نشانی ہے پھول جنت کی نشانی ہے کانٹا دوزخ کی نشانی ہے ۔ پھول حسن کی علامت ہے پھول انسانیت کی نشانی ہے ۔ پھول حقیقی اور لازوال خوشی کا پیغام دیتا ہے ۔آج پھولوں کی خوشبو کی جگہ نوٹوں کی خوشبو لے رہی ہے ۔ نوٹ کیا ہے ؟ کاغذ کا ایک مصنوعی ٹکٹراہے ۔ کاغذی پھول ہے ۔بناوٹ کی پکی علامت ہے
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کبھی خوشبو نہیں آتی کاغذ کے پھولوں سے
گل لالہ علامہ اقبال کا پسندیدہ پھول ہے اقبال کے کلام میں گل لالہ کا ذکر کثرت سے آیا ہے۔ پھولوں کی کثرت ماحول کو خوشبو دار بنا نے کی ضمانت ہے اور پھولوں کی قلت سے ماحول بدبود ار بن جاتاہے آج ہم بدبودار ماحول میں جی رہے ہیں ۔ ماحول دشمن عناصر کا غلبہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے
چھاں کچھ جن کی خنک اور گھنی ہوتی ہے
ان درختوں کی یہا ں بیخ کنی ہوتی ہے
آج پھول کی جگہ موبائل نے لے لی ہے اور باغات کی تباہی کا ٹھیکہ ہائوسنگ سو سائٹیوں کو دیا گیا ہے
اِس دور کے پھولوں میں کہاں پیار کی شبنم
یہ دور محبت کا لہو چاٹ چکا ہے

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار