آبی قلت کا سنگین ہوتا مسئلہ

ایک جانب معمول سے ہٹ کر شدید بارشیں برف کے قدیم پہاڑ شق ہو جانے سے سیلاب کے خطرات شدید گرمی ‘ بارشوں کے باوجودپانی کی قلت اور زیرزمین پانی کے ذخائر کی سطح میں مسلسل گراوٹ اور پستی معلوم نہیں قدرت اور فطرت ہماری بے اعتدالیوں کی سزا ہمیں اور کس کس اندازمیں دے گی اور اس کی قہر سامانیوں کے باعث زندگی کتنی مشکل ہو جائے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ ماہرین اس کا اندازہ لگا کر انتباہ مسلسل جاری کرتے رہتے ہیں ماحول کی تباہی کے اثرات کبھی بھی فطرت کو برداشت نہیں اور فطرت اپنا بدلہ چکائے نہیں چھوڑتی۔ پانی کے ذخائر میں مسلسل کمی اور سیلابوں کی صورتحال دیکھیں تو خود بخود اندازہ ہوجاتا ہے کہ فطرت کس قدر بد لحاظ اور انتقام لینے پرتلی ہوئی چیز ہے ۔ پانی کی قدر امریکہ اور سعودی عرب میں ڈالر اور ریال دے کر خریدنے والوں سے پوچھیں ہمیں قدرت نے جس فراوانی کے ساتھ پانی کی نعمت سے نوازا ہے بدقسمتی ہم اتنے ہی ناشکرے اور مسرفین میں سے ہیں مالک کائنات کو اسراف کرنے والے بالکل پسند نہیں جب ہم ان کی نعمت کی قدر نہیں کریں گے تو ان سے کیسے مدد مانگیں کہ وہ ہمیں ان مشکلات سے بچائے ۔ حدیث پاک کی رو سے تو ہم دریا ندی اور سمندر کے کنارے وضو جیسی عبادت کے لئے بھی اضافی پانی لینے کے مجاز نہیں کجا کہ اسے بلا ضرورت بے دریغ بہاتے چلے جائیں اہل وطن کو معلوم ہونا چاہئے کہ تازہ پانی کے ذخیروں میں کمی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث پانی کی فی کس دستیابی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے لہٰذا پاکستان پانی کے سنگین بحران کی طرف بڑھتا جا رہا ہے ۔2017ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار نے پانی کی دستیابی کے اس حساب کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا ہے ‘ بعد کی مردم شماری کے بعد یہ حساب سالانہ 850 کیوبک میٹر فی کس بنتا ہے جاری مردم شماری کے نتائج سامنے آئیں تو یقینا مزید بری صورت سامنے آئے گی ‘ یوں ہم پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں ۔ دریائوں میں پانی کی کمی کا تعلق پڑوسی ملک میں ڈیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی جوڑا جا سکتا ہے جو پانی کو بڑی مقدارکو نیچے دریائوں تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آب گیری علاقوں میں نارمل مقدار سے کم بارشوں کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے ۔
دوسری طرف ہم نے اپنے آبی ذخائر’ جو زمین کی سطح پر ہیں اور جو زیر زمین ہیںکا موثر انداز میں انتظام سنبھالنے میں انتہائی کوتاہی برتی ہے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران پاکستان نے ایک بھی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان ہر سال 25 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع کر دیتا ہے ۔موجودہ آبی ذخیروں میں سے ایک تربیلا میں گارا جمع ہونے کی وجہ سے اپنی تیس لاکھ ایکٹر فٹ تک کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ 70کی دہائی کے وسط میں اس کی تعمیر کے بعد کسی نئے آبی ذخیرے کو تعمیر کرنے میں ہماری ناکامی ہماری نا اہلی اور مستقبل کے لئے بے فکری کو ظاہر کرتی ہے ۔ ہم سالانہ 145ملین ایکٹر فٹ( ایم اے ایف) پانی حاصل کرتے ہیں جس میں سے ہم صرف 14ایم اے ایف ذخیرہ کرتے ہیں۔ ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اوسطاً30ایم اے ایف پانی سالانہ سمندر میں بہا دیتا ہے جبکہ کوٹری ڈائون اسٹریم کی ماحولیاتی بقاء کے لئے آٹھ ایم اے ایف سے بھی کم کی ضرورت ہوتی ہے ہم عملاً نئے آبی ذخائر تعمیر نہ کرکے سونے جیسے قیمتی پانی کو ضائع کر رہے ہیں۔خشک موسم سرما کے دنوں میں ہمارا آبپاشی کا تمام دارومدار تربیلا اور منگلا ڈیمز میں ذخیرہ کئے گئے پانی پر ہوتا ہے ۔ رواں سال پورے موسم بہار کے دوران دونوں ڈیموں میں پانی کی سطح کم ترین سطح پر رہی لہٰذا انڈس بیسن کے آبپاشی نظام کے آخری سروں پر خاصی مقدار میں پانی کی دستیابی ممکن نہیں ہو پائی۔
ہماری نا اہلی کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے لئے بڑے بڑے آبی ذخائر کی عدم موجودگی اور خشک سردیوں کی وجہ سے ہمارے پانی کے زیر زمین ذخائر پر اضافی بوجھ پڑتا ہے ہمارے کاشتکار اور ہمارے فراہمی آب کے شہری ادارے بے تحاشا مقدار میں قیمتی زمینی پانی کھینچ نکالتے ہیں۔ہم زیرزمین موجود پانی جس مقدار میں باہر کھینچ رہے ہیں اس کے مقابلے میں زیرزمین ذخائر میں بہت ہی کم پانی ڈال رہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سالانہ تین سے چار ایم اے ایف کے خسارے کا سامنا ہے ‘ اور ہمارے زیر زمین آبی ذخیرے میں خطرناک حد تک کمی واقعی ہو ریہ ہے ۔ زیر زمین پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے رین واٹر ویسٹنگ اور جزوی طور پر گندے پانی کے جھیلوں سے ٹریٹ شدہ پانی کے ذریعے پورا کرنے کے دو حل تو موجود ہیں مگر ہم ان اقدامات کو بڑے پیمانے پر کرنے سے ابھی کوسوں برس دور ہے ۔
ہمارے زرعی شعبے کی فلڈ ایری گیشن سے لگانے کی بھی ہمیں کافی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ ہم ان پرانے آبی طریقوں کو اختیار کرکے نہ صرف تازہ پانی کو ضائع کر رہے ہیں بلکہ اس طرح خطے کے لحاظ سے فی ایکٹر کے حساب سے سب سے کم فصل کی پیداوار ہمارے پاس ہوتی ہے ۔ ابھی بھی موقع ہے ہمیں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اب جبکہ ملک کی قومی آبی پالیسی کی باضابطہ طور پر منظوری دی جا چکی ہے تو اب اسے دفتری الماریوں میں گرد آلود نہیں ہونے دینا چاہئے ۔ ہمارے قومی اور صوبائی سطح کے واٹر مینجمنٹ ادارے ‘ مقامی حکومت کے ادارے اور صحت عامہ اور آبپاشی کے محکموں کو آبی ذخیرے کی مینجمنٹ کو موثر بنانے کے کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپس میں عزم کرنا ہو گا۔
ابتدائی طور پر صوبوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر نئے آبی ذخائر کی تعمیر پراتفاق کرنا چاہئے آبی ماہرین کاکہنا ہے کہ ہماری آبادی میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اس طرح ہمیں ہر دس سالوں میں تربیلا کے سائز کا ایک ڈیم چاہئے ہو گا۔ آبی پالیسیوں کے علاوہ ہمیں وفاقی اورصوبائی واٹر کمیشنز کی بھی ضرورت ہے تاکہ تمام سطحوں پر آبی وسائل کے موثر انتظام و انصرام کو یقینی بنایا جا سکے ۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے کھیتوں ‘شہروں اور صنعتوں میں پانی کے موثر استعمال کو بھی فروغ دینا ہو گا۔ مگر سب ے پہلے ہمیں پہلے قدم اٹھاتے ہوئے مون سون کے اضافی پانی کو اسٹور کرنے کے لئے نیا ڈیم بنانا ہو گا ۔ ابھی ۔اگرچہ فیصلے میں بہت تاخیر ہو چکی ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم اس صورتحال کے حوالے سے منصوبہ بندی کریں او رممکنہ اقدامات اٹھائیں پانی کے ذخیرے اور بچت دونوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ وقت کی آواز سننی چاہئے ہم کس قدر پانی ضائع کرتے ہیں کیا کبھی کسی نے اس حوالے سے خود احتسابی کی زحمت کی ہے شاید ہمیں اس کی فکر ہی نہیں فکر ہوتی تو ہوش کے ناخن لئے جاتے ہمیں خود ہی ہوش کے ناخن لینے چاہیں ایسا نہ کیا تو قدرت اور فطرت خواہ مخواہ ہمیں ایسا کرنے پر مجبور ضرور کرے گی مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''