انتشار کی سیاست سے گریز کی ضرورت

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری او رہائی پی ڈی ایم کا اپنی ہی حکومت میں دفعہ 144 کے باوجود احتجاجی مظاہرے کا اعلان عدالت اور مقتدر اداروں کے حوالے سے بیانات و معاملات سب سے بڑھ کر سیاستدانوں کا سیاست سے گریز اور ہر کام طاقت و تشدد سے کرنے اور عمل و ردعمل کا ایک طویل جاری سلسلہ سیاسی درجہ حرارت کی انتہا کے باعث پیدا شدہ صورتحال و حالات اس تاثر کو راسخ کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس وقت ملک کا کوئی بھی ادارہ غیر جانبدار اور فرائض منصبی کی یکسوئی اور کلی طور پر ادائیگی کی ذمہ داری تک محدود نہیں اور اگر ایسا ہے بھی تو بھی پراپیگنڈے اور ایسے تضادات کی زد میں ہے کہ غیر یقینی کی صورتحال ہے جس کے اثرات خاص طور پر عوام پر مایوسی اور ناامیدی کی صورت میں پڑ رہے ہیں بدقسمتی سے فوج جیسے باوقار ادارے کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا کرنے سے دریغ نہیں کیا جارہا ہے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان مشاہدات سے کوئی سبق حاصل کرنے کے لئے تیار ہے کہ جن ممالک میں فوج کا ادارہ اس طرح کے حالات کا شکار ہوا آج ان ممالک میں کس طرح کی صورتحال ہے نوشتہ دیوار ہے یہ اسے پڑھ لینا چاہئے اس سارے عمل میں عوام اور ملک و قوم کا سوچنے والے ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے ملکی سیاست کا حال تو گھری ہوئی طوائف تماشبینوں میں کی جیسی ہے آئین و قانون دستور یہاں تک کہ فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھی اب سیاسی پسند و ناپسند او رمصلحتیں غالب آنے کا گمان گزرنے لگا ہے یہ ساری صورتحال ملک و قوم کے لئے نہایت پریشان کن اور خطرناک ہے ۔ تحریک انصاف کے قائد کی گرفتاری کے وقت جو رویہ اپنایا گیا وہ درست نہ سہی لیکن ان کی گرفتاری پر جس قسم کی توڑ پھوڑ اور قومی املاک کونقصان پہنچایا گیا وہ بھی قطعی نامناسب عمل تھا۔ ایک سیاسی جماعت او راس کے کارکنوں کے لئے اس طرح کے موقع پر عوامی قوت کا پرامن مظاہرہ ہی مناسب ہوتا گھیرائو جلائو اور تکلیف دہ عوامل میں ملوث ہونا یا پھر اس طرح کے عناصر کی اپنی صفوں میں موجودگی اور ان کے عمل کا تحریک انصاف کا ردعمل ہونا ہر دو صورت کا منفی تاثرات کا باعث بننا فطری امر تھا ملک کے کسی رہنما کی گرفتاری پر اس طرح کا ردعمل کسی نے ظاہر نہیں کیا ان حالات کی ذمہ داری اور تعبیر جیسے بھی کی جائے بطور احتجاجی جماعت تحریک انصاف کی قیادت کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ اس صورتحال میں ذمہ دارانہ کردار پر توجہ درکار ہے یہاں جہاں پی ٹی آئی کی قیادت سے ذمہ دارانہ کردار کی توقع رکھنی چاہئے وہاں پی ڈی ایم کی قیادت سے بھی جذبات کی بجائے ٹھنڈے دل سے حالات پر غور کرنے اور ہر قسم کے تحفظات کے باوجود تحمل سے کام لینے کی توقع رکھنی چاہئے ‘ جب دونوں طرف سے زبانیں آگ اگلنے لگیں ادارے تک یکطرفہ ہونے کا تاثر دینے لگیں تو پھر حالات کے درست کرنے کی توقعات کس سے باندھی جائیں حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومتی اتحاد اب خود اپنے ہی دور حکومت میں سڑکوں پر آنے کا اعلان کر چکی ہے سپریم کورٹ کا گھیرائو کرنے جیسا عمل تمام تر تحفظات کے باوجود انتہا پسندانہ اور دبائو بڑھانے اور انصاف پر اثر انداز ہونے کا حربہ متصور ہوگا سیاست و عدل ہی جب بند گلی میں اکٹھے داخل ہوجائیں توپھردرمیانی راستہ نکالنے اور بحران کے حل کی کوئی امید کی کرن کہاں سے نظر آئے ۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ملک پہلے ہی انتہائی نوعیت کے مشکل حالات سے دو چار ہے دہشت گردی معاشی بدحالی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کچھ کم تھی کہ باہمی تصادم کی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے اس طرح کے حالات میں دنیا کا کوئی بھی ملک سیاسی بے چینی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سیاستدانوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان حالات کے بخوبی ادراک کے باوجود ملک کواپنے ہاتھوں بحران میں دھکیل دیں۔اسی طرح کے حالات میں مذاکرات اور نتیجہ خیز مذاکرات کی بھی توقع نہیں رہ جاتی اس کے باوجود کسی درمیانی راہ کی تلاش اور اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے سیاستدانوں کو ہر قیمت پر سیاست و ا قتدار کی لڑائی لڑنے کی بجائے ملک و قوم کے مستقبل اور لوگوں کی مشکلات کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے ملک میں امن قائم ہے تو سیاستدانوں کو کرسی مل سکے گی خدانخواستہ بدامنی کا شکار ہوجائے تو پھر اقتدار نہیں عوام کے غیص و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ وہ نوبت نہ آنے دی جائے اور انا پسندی اور ضد کی بجائے مفاہمت اور اعتدال کا راستہ اپنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے