خاکمِ بدہن اگر یہ سچ ہے تو

سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں گرفتار ہونے والی تحریک انصاف کی خواتین کو جیلوں میں ہراساں کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق ملک سے جمہوریت ختم ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس ازخود نوٹس لے کر جیلوں میں بند ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والی خواتین کو رہا کرنے کا حکم دیں۔ عمران خان نے اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پر بھی سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اس بیان سے قبل انہوں نے اپنی جماعت کے کراچی سے ایک رکن اسمبلی کی پارٹی سے علیحدگی پر کہا تھا کہ پارٹی چھوڑنے پر انکار کرنے کی وجہ سے اس رکن کی بسیں جلادی گئیں پھر دباو میں آکر اس نے پارٹی چھوڑدی اپنے ٹیوٹر اکائونٹ پر انہوں نے جلتی بسوں کی تصویر بھی شیئر کی مگر جب انہیں سوشل میڈیا صارفین نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مذکورہ تصویر کی حقیقت بتائی تو انہوں نے ٹیوٹ اور تصویر کو ڈیلیٹ کردیا۔ حالانکہ اصولی طور پر انہیں اپنی غلط بیانی پر معذرت کرنی چاہیے تھی۔ اب خواتین کو جیلوں میں ہراساں کرنے کے ان کے سنگین الزام کے جواب میں پنجاب کے نگران وزیراعلی سید محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عامر میر کا کہنا ہے کہ عمران خان جھوٹ بول کر جہاں خواتین کے لئے شرمندگی کا سامان کررہے ہیں وہیں وہ عوام کو بھی گمراہ کررہے ہیں۔ وزیراعلی نے یہ بھی اعلان کیا کہ گو حکومت جانتی ہے کہ عمران خان جھوٹ بول رہے ہیں لیکن پنجاب حکومت تحقیقات کے لئے 2 رکنی خصوصی کمیٹی قائم کررہی ہے تاکہ حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں۔ جیلوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام صرف عمران خان نے ہی نہیں لگایا بیرون ملک موجود ان کی جماعت کے بعض حامیوں نے چند دن قبل پچھلے برس ایران میں ہوئے ہنگاموں میں پولیس تشدد سے متاثرہ خواتین کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگاتے ہوئے دعوی کیاکہ ان خواتین کو حالیہ دنوں میں پاکستان میں پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایاہے اس سے قبل ایک گھنائونے سکینڈل میں ملوث عمران خان کے سابق مشیر افتخار درانی نے ایک ٹی وی پروگرام میں دعوی کیا کہ جیلوں میں پی ٹی آئی کی خواتین سے بدسلوکی کی گئی ہے ۔ پروگرام کے میزبان نے کسی تصدیق کے بغیر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے زہر گھولا میرے پاس ایسی اطلاعات تھیں لیکن آپ نے تصدیق کردی ہے۔ اب جبکہ وزیراعلی پنجاب نے ان الزامات کی تحقیقات کے لئے خصوصی کمیٹی قائم کردی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ کمیٹی کے ٹی آر اوز میں ا فتخار درانی اور متعلقہ پروگرام کے اینکر سمیت پی ٹی آئی کے ان تمام لوگوں سے پوچھ گچھ کو لازمی قرار دیں جنہوں نے محض اپنی سیاست کو سہارا دینے کے لئے گھٹیا الزام تراشی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف ہر دو کے ماضی اور منفی الزامات کی تکرار کو دیکھتے ہوئے بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں جھوٹے الزامات سے سنسنی پھیلانے اور اسکے ذریعے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کا مرض لاحق ہے اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جیلوں میں بند خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی بنیاد پر بیرون و اندرون ملک چند دنوں سے متواتر سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے بعد عمران خان کا اس الزام کو دہرانا اس امر کا متقاضی ہے کہ آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے نہ صرف حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں بلکہ دروغ گوئی پر ان تمام افراد کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی کو بھی یقینی بنایا جائے۔
ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پچھلے ایک برس کے دوران عمران خان نے اپنی پارٹی کے متعدد رہنمائوں کی گرفتاری کے بعد ان پر جنسی تشدد کا الزام عائد کیا تھا ۔ الزام تراشی کی اس مہم کا مقصد ملک اور نظام کو بدنام کرنے کے علاوہ عوامی ہمدردیاں سمیٹنا تھا۔ حالیہ دنوں میں عمران خان کی گرفتاری جسے وہ اغوا قرار دیتے ہیں کے بعد ملک بھر میں ہوئے پرتشدد مظاہروں، لاہور میں کور کمانڈر کا گھر جلانے کے علاوہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملے اور دوسرے سنگین واقعات کے بعد جہاں رائے عامہ میں ان واقعات کے خلاف ناراضگی پیدا ہوئی وہیں پچھلے چند دنوں کے دوران ان کی جماعت کے بعض اہم رہنمائوں سمیت درجنوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اورٹکٹ ہولڈروں نے مقامی حامیوں کیساتھ پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کیا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تحریک انصاف چھوڑنے والوں میں پارٹی کے چیف آرگنائزر سینیٹر سیف اللہ خان نیازی بھی شامل ہیں۔ پرتشدد واقعات اور موثر افراد کے پارٹی چھوڑنے کے سلسلے سے متاثر ہوئی سیاست کو اگر انہوں نے خواتین سے بدسلوکی کے گمراہ کن بیان سے سہارا دینے کی کوشش کی ہے تو یہ نہ صرف ایک سنگین جرم ہے بلکہ اس سے اس امر کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں لیکن اگر خاکم بدہن ان کے الزام میں رتی برابر بھی صداقت ہے تو کسی تاخیر کے بغیر ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر کیفرکردار تک پہنچایا جاناچاہیے۔ عمران خان کی سیاست کے عمومی رجحان اور گزشتہ ایک برس کے دوران ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی روشنی میں اگر تازہ الزام کا تجزیہ کیا جائے تو یہ امر دوچند ہوجاتاہے کہ وہ مقصد کے حصول کیلئے کچھ بھی کر اور کہہ سکتے ہیں۔ اپنی گرفتاری کے بعد پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے صبح شام ان کے بدلتے موقف اورگھڑے گئے جوازات کے تناظر میں تو یہ نیا الزام بے سروپا ہے بالخصوص اس صورت میں کہ ان کی جماعت کے آفیشل سوشل میڈیا اکائونٹس اور بعض ہمدردوں نے اندرون بیرون ملک خواتین پر تشدد کی جو تصاویر وائرل کیں وہی چند لمحوں میں غلط ثابت ہوگئیں۔ اسی طرح پارٹی نہ چھوڑنے پر بسوں کو جلانے والا الزام خود عمران خان ڈیلیٹ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ گو کہ مسلسل غلط بیانی کے مرتکب شخص اور جماعت کے لوگوں کی کسی بات پر اعتبار مشکل ہے اس کے باوجود ہماری دانست میں یہ تجویز درست ہے کہ وزیراعلی پنجاب نے تحقیقات کیلئے جو 2رکنی کمیٹی قائم کی ہے اسے وسعت دے کر جے آئی ٹی میں تبدیل کیا جائے اور اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر عدالتی کارروائی کو بہرصورت یقینی بنایا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ تحقیقات کے نتائج عوام کے سامنے لانے اور ذمہ داران یا دروغ گوئی کے مرتکبین کو کیفرکردار تک پہنچانے میں پنجاب حکومت کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گی۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ بیرون ملک بیٹھ کر غلط تصاویر کو پاکستان کے حالیہ واقعات سے منسوب کرکے ملک کو بدنام کرنے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کو یقینی بنائے تاکہ اس جھوٹ کی طومار کا موثر علاج ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال