3 87

کس سے لڑنا ہے؟

دو انتہائی مختلف روئیے ہیں جس کا علم پاکستانی قوم کی جانب سے بلند ہے۔ ایک وہ رویہ ہے جو میڈیا پر دکھائی دیتا ہے۔ انتہائی پریشان’ محتاط اور کچھ خوفزدہ سا رویہ۔ اس میں ایک انتہائی نامعقول نعرہ ”کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے” اب بھلا کوئی پوچھے کہ بھائی کورونا سے ڈرنا ہی تو ہے جس کے باعث فاصلوں کو بنائے رکھنے کی بات ہو رہی ہے، مسلسل ہاتھ دھونے کی بات ہو رہی ہے’ ہاتھوں پر سیناٹائزرز استعمال کرنے کی بات کی جا رہی ہے، ہدایات جاری کی جا رہی ہیں کہ منہ پر ماسک پہنا جائے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کہتے ہیں کہ وہ اپنے صوبے میں لوگوں کو پانچ لاکھ ماسک مفت فراہم کریں گے لیکن اگر کوئی شخص بنا ماسک دکھائی دیا تو اسے جرمانہ کیا جائے گا۔ اپوزیشن مسلسل وزیراعظم صاحب کی حکمت عملی برائے جزوی لاک ڈاؤن کو نشانہ تنقید بنائے ہوئے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے شدید مرض اور خطرے کے ہوتے ہوئے وزیراعظم کا یہ رویہ اور لاپرواہی نہایت تشویشناک ہے۔ یہ سب روئیے ڈر کے ہی روئیے ہیں مجھے اس میں کرونا وائرس سے دست وگریباں ہونا کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ پھر یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ آخر یہ نعرہ کیونکر جاری وساری ہے۔ میڈیا مسلسل صرف ان لوگوں کی تعداد دکھاتا ہے جو کورونا وائرس سے متاثر تشخیص کئے جاتے ہیں’ کبھی بھی ان لوگوں کا موازنہ اس تعداد کیساتھ نہیں کیا جاتا جو روز کے حساب سے تندرست ہو رہے ہیں۔ نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی ایسی صورت کارفرما ہے جس میں اموات کی تعداد خاصی کم ہے۔ مسلسل بس یہ شورشرابا سننے میں آتا ہے کہ اتنے طبی عملے کے لوگ متاثر ہوئے’ فلاں ڈاکٹر جان کی بازی ہار گیا۔ ڈرے ہوئے تو ہم ہیں’ پاکستانی بحثیت قوم ڈرے ہوئے ہیں یا نہیں یہ سوال البتہ اپنی جگہ قائم ودائم ہے۔ میڈیا کی حد تک تو سراسیمگی بے شمار ہے۔ خوف کی ایسی فضا ہے جس میں لڑنے کی تو کوئی بات ہی دکھائی نہیں دیتی۔ پھر یہ نعرہ منطق کے کسی ترازو، کسی باٹ پر کوئی ایسا وزنی محسوس نہیں ہوتا لیکن ہم بحیثیت قوم بھیڑ چال کے ماہر ہیں۔ صدیوں کی عادت تو اب (Genes) جینز میں شامل ہو چکی ہے۔ اسی لئے کبھی کوئی سوال نہیں ہوتا’ اعتراض نہیں کیا جاتا’ بس چل پڑتے ہیں، کرونا کے حوالے سے بھی یہی کیفیت ہے۔ اس نعرے کیساتھ ساتھ اور بھی کتنی ہی باتیں ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں۔ اب کوئی بھی کرونا کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کرتا گویا ہم ذہنی طور پر شکست بھی تسلیم کئے بیٹھے ہیں ورنہ اس خوف کیساتھ ہی جینے کے طریقے ایجاد کرتے۔ یہ سمجھ لیتے کہ کرونا ہمارا دوست ہے’ ہمیں اس کے ذریعے قدرت اچھی باتیں سکھا رہی ہے۔ صفائی کا خیال رکھنا’ ہاتھ دھونا’ بے وجہ بازاروں میں گھومنا’ دنیا کی آلودگی میں اضافہ کرتے معاملات سے احتیاط برتنا’ سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم’ فیکٹریوں کا دھواں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر موت کا خوف سر پر سوار ہو جانا۔ اس حد تک موت کا خوف انسان پر طاری ہے کہ امریکہ کو دنیا میں اپنی طاقت کی گرفت بھول گئی ہے، چین سے دشمنی اگرچہ بھولنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے لیکن پھر خوف ہے جو اپنے پنجے گاڑتا چلا جا رہا ہے’ بے ثباتی کے اثبات کا یقین انہی عظیم دنیاوی طاقتوں سے عنقاء تھا۔ وہ انسان (Head transplant) کی جانب رواں دواں تھا اور اس حوالے سے ہر مذہب کے مذہبی حلقے بھی بحث مباحثے میں شامل تھے۔ اب اس ننھے وائرس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے اورکوئی نہیں جانتا کہ اس کا توڑ کب تک دریافت ہوسکے گا۔ اس انسان نے اس کرۂ ارض پر کیا تباہی مچا رکھی تھی۔ ایک دوسرے کی طاقت اور برتری برداشت کرنا تو ایک طرف انسان خود اپنی بھی بقاء کیخلاف برسرپیکار رہتا ہے۔ اتنی صدیوں کے تمدن نے صرف اس کرۂ ارض کو نقصان ہی پہنچایا ہے’ سو اب قدرت اپنے طریقے سے اسے سنوار رہی ہے’ اسے ہم جتنی جلدی سمجھ جائیں اور جتنی جلدی سر تسلیم خم کر دیں اتنا ہی بہتر ہے ورنہ کون جانے’ آج جو کرونا کی صورت میں ہم پر حاوی ہے کل کس صورت میں ہمیں گرفت میں لئے ہوئے ہو۔ احتیاط ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنا طریقہ کار درست کریں۔ ہمیں احساس ہو کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں اور انہوں نے خود ہمیں اس دنیا کو’ اس میں رہنے والی دوسری مخلوقات کو کیسے نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں احساس ہو اور ہم ایک لائحہ عمل مرتب کریں۔ ایک ایسا لائحہ عمل جو انسان کے اس طور منہ زور ہونے اور بے حجاب ہوجانے کا حل تلاش کرے اور بے حجاب ہونے میں محض اس کا ظاہری مطلب نہیں’ انسان تو اس کرۂ ارض میں رہنے کے اصول وضوابط سے بھی بے حجاب ہو چکا تھا۔ ہر ایک شے کا زیاں اور اپنی منحنی طاقت کا بے محابا احساس واظہار بھی اس بے حجابی میں شامل تھا۔ مجھے تو یہ نعرہ بھی اسی بے حجابی کا حصہ لگتا ہے۔ ہمیں اپنی کمزوری کا بخوبی اندازہ ہے لیکن ہم انتہائی بے حجابی سے اپنی طاقت کا اظہار کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں اور کیا کیجئے گا اس دنیا کیساتھ۔ اس دنیا کو تو اللہ تعالیٰ نے ایک عمر’ ایک مہلت کیساتھ تخلیق کیا ہے۔ اس مہلت سے پہلے ہی ہم سب کچھ اُجاڑ کر رکھ دینا چاہتے ہیں’ سارے حل معلوم ہوتے ہوئے بھی کوئی حل نہ کرتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں’ تبھی تو قدرت کو اس صورتحال کو اپنی گرفت میں لینا پڑا اور ہم نے کیسا بھونڈا اظہار کیا کہ کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے’ کوئی پوچھے غائب سے کیسے لڑا جاتا ہے؟ جب حکم ہوا تو اس کا توڑ اس کا علاج دریافت ہو جائے گا۔ اس سے پہلے تو صرف ڈرنا ہے کرونا سے نہیں’ اللہ سے اس کی محبت کی بھیک مانگنی ہے’ اس کے رحم کے طب گار رہنا ہے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے