وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

دم تحریر ہاڑ کے مہینے کی 9 تاریخ ہے یعنی وہ جسے ہمارے ہاں پشکال اور ہمسایوں کے ہاتھ ساون کا مہینہ کہا جاتا ہے جس میں پنجاب سے پیچھے کی جانب چلتے ہوئے کئی علاقوں میں روایتی شاعری کو اگر اکٹھا کیاجائے تو کئی کئی دیوان مرتب کئے جا سکتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ساجن اور سجنی کے باہمی روابط کاذکر ان علاقوں میں عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ فراق کے کربناک لمحات کو بھی جوڑا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کم بخت پشکال سے بندہ اس قدر عاجز آجاتا ہے کہ وہ ہاڑ ‘ ساون ‘ بھادوں تینوں مہینوں میں اوزار ہو کر ان میں پوشیدہ مشکلات کا ہی تذکرہ کرتا رہتا ہے ‘ بلکہ جاتے جاتے اسوج کے بارے میں بھی حرف شکایت زباں پر لے آتا ہے اور مقامی زبان میں یوں گویا ہوتا ہے کہ ”اسو(اسوج) اور دے سو” یعنی اوج تم نے بھی جھلسا کر رکھ دیا ہے ‘ بات موسموں کی نہیں بلکہ یہ جوابھی ہاڑ کی ابتداء ہی میں سورج آگ برسانے پر تلا دکھائی دے رہا ہے اور ہاڑ میں پشکال کے ”مزے”آرہے ہیں اس میں اگر بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھی رنگ جمانے لگے تو پھر شہری کے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کو جائز قراردیا جا سکتا ہے یانہیں ‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ پیسکو کے حکام ہی کر سکتے ہیں جو ہدایت حکومت کی طرف سے دی گئی تھی اس میں یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی تھی کہ پشاور میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ دوگھنٹے تک کیاجائے گا ‘ پیسکو حکام نے اگرچہ یہ کہا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کی جانب سے دیا جاتا ہے جو ایک لحاظ سے عوام کی آنکھوں میں ”تکنیکی دھول” جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ عوام بے چارے تو سادے مرادے لوگ ہیں وہ الفاظ کے اس گورکھ دھندے اور تکنیکی موشگافیوں کوکیا جانیں وہ تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ صارفین بجلی سے ایف سی سرچارج ‘ فیول پرائس ‘ جنرل سیلز ٹیکس ‘ سالانہ کوارٹر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور دیگر مدوں میں مختلف قسم کے ٹیکس وصول کرنے کے باوجود انہیں بجلی نہیں دی جارہی ہے جبکہ چند روز پہلے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک شکایت کے مطابق بعض جگہوں پر ”پرمٹ” کے نام پر طویل بریک کی”وبائ” بھی چل پڑی ہے یعنی بجلی کے نظام میں اکثر خرابی دور کرنے کے لئے احتیاطی تدابیر کرتے ہوئے گرڈ سے متعلقہ علاقے کے لئے پرمٹ حاصل کیا جاتا ہے اور مقررہ اوقات کے دوران ایسے علاقوں کی بجلی منقطع کردی جاتی ہے تاہم اب اس پرمٹ سسٹم کو مبینہ طور پر بلاوجہ اور بلاجواز مختلف علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ‘ اب اس میں کتنی صداقت ہے تاہم بقول شخصے جس تن لاگے ‘ سوتن جانے ‘ یعنی جس پر گزرتی ہے وہ بہتر ادراک رکھتا ہے ‘ اگر لوگوں نے شکایت کی ہے تو اس میں صداقت بھی ہوسکتی ہے ‘ جبکہ اس کے ساتھ پیسکو کے وہ لوگ جو شہر بھر میں عوام کی شکایات سننے اور ان کو بروقت دور کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ہر علاقے میں چوبیس گھنٹے(شفٹوں میں) ڈیوٹی پر ہوتے ہیں ‘ انہوں نے ایک عجیب وتیرہ اختیارکرنا شروع کر دیا ہے اور وہ یہ کہ اکثر علاقوں میں رات کی ڈیوٹی پر مامور عملہ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا یعنی لوگ لنک ڈائون ہونے یا کسی مسئلے کی شکایت کرنے چلے جائیں تو دفتر کوتالا لگا ہوتا ہے اور لوگ بے نیل و مرام واپس آکر شدید گرمی میں راتوں کوبھی جھلستے رہتے ہیں جبکہ پیسکو کے حکام اپنے گھروں میں”گھوڑے بیچ کر سوتے رہتے ہیں اور اپنے عملے کی ناکردنیوں کا کوئی نوٹس لیتے ہی نہیں”۔خیریہ تو چند جملہ ہائے معترضہ تھے ‘ اصل مسئلے کی جانب آتے ہیں یعنی حکومتی شخصیت کے ساتھ گفت و شنید کے دوران لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ دو گھنٹے تک محیط کرنے کے وعدے وفا ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہ دی جانے کے بعد اس جھلسا دینے والی گرمی کے بعد تنگ آئے ہوئے لوگوں نے یونیورسٹی روڈ کوبند کرکے احتجاج کا ڈول ڈال ہی لیا اور وہ جو کہتے ہیں کہ
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
کیونکہ ابھی تو ”پارٹی شروع ہوئی ہے” مقصد کہنے کایہ ہے کہ ابھی تو ہاڑ کی نو تاریخ ہے ‘ یعنی بقیہ 21یا 22 دن کے بعد پشکال(ساون) اس کے بعد بادرو (بھادوں) سخت ترین گرمی کے آنے والے ہیں ‘ ساون اکثر 32یا 33 دن کا ہوتا ہے بھادوں بھی تیس یا 31 کارہتا ہے جس کے بعد اسوج بھی”چبھن”سے مشروط رہتا ہے اس لئے اگرابھی سے حالت یہ ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکل کر ٹائر جلانے پرمجبور ہو رہے ہیں تو آگے کیا ہونے کے امکانات ہیں؟ خصوصاً جب حبس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ لوگ بقول شاعر گرم ہوائوں کے تھپیڑوں کی مانگ پر مجبور ہوجاتے ہیں یعنی وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ ‘ اب پیسکو والے ہی بتائیں کہ یہ جو قومی گرڈ سے خیبر پختونخوا کے لئے مقرر کردہ کوٹے سے بھی کہیں کم بجلی ہمیں ملتی ہے تو اس کا جواز کیا ہے ؟ اس میں بھی مبینہ طور پر جوتگڑم بازیاں کی جاتی ہیں اور ”سیانے”کہتے ہیں کہ یک طرف تولائن لاسز کے نام پر بجلی بلوں میں اضافی یونٹ ڈالے جاتے ہیں ‘ تو دوسری جانب جن گھروں میں کئی کئی ایئرکنڈیشنرز رات دن وہاں کے مکینوں کے لئے پربہار موسموں کی نوید لاتے ہیں ‘ وہاں واپڈا کے کارندے ”ہاتھ کی صفائی” کا یوں اہتمام کرتے ہیں کہ ان گھروں سے میٹر اتار کر چیکنگ کے نام پر چٹ چسپاں کردیتے ہیںاور بجلی ڈائریکٹ کردی جاتی ہے(دروغ برگردن راوی) اور پھرتین مہینے بعد میٹر واپس لا کر لگا دیا جاتا ہے یوں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی ‘ رنگ بھی چوکھا آتا ہے ‘ باقی کی تفصیل آپ خود زیادہ سمجھدار ہونے کے ناتے اچھی طرح جان سکتے ہیں اس لئے ہمیں خواہ مخواہ کیوں تکلیف دیتے ہیں ‘ بس سمجھ جایا کریں ‘ ہاں اتنا ہے کہ کنڈہ کلچربھی ہمارے معاشرے میں عام ہے ‘ عام سے مراد یہ کہ جو ہماری طرح ڈرپوک اور ضرورت سے شریف ہوتو وہ یہ کام نہیں کر سکتا بلکہ اس کی ہمت ہی اسے نہیں پڑتی ‘ باقی جو نہیں ڈرتا ‘ وہ نہیں مرتا ‘ اس لئے اضافی لوڈ شیڈنگ کے لئے ایسے لوگوں کو بھی ذمہ دار قرار دیا جا سکتاہے ‘ یوں ایک جنگ سی چل رہی ہے پیسکو اور(بجلی چوری کرنے والے) سورمائوں کے درمیان ‘ مگر اس جنگ زرگری میں ہم جیسے مجبور محض ڈرپوک بلکہ شریف لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور ہاتھیوں کے درمیان جنگ کے دوران گھاس کی صورت کچلنے والی صورتحال کو واضح کرتے چلے جاتے ہیں’ ان میں بھی جو لوگ بہت ہی تنگ آجائیں تو وہ تنگ آمد بہ جنگ آمد ‘ سڑکوں پرٹائر جلا کرٹریفک جام کردیتے ہیں۔ایسے میں”بی بجلی” کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ
دستک تو بڑی بات ہے ‘ تم جب سے گئے ہو
اس گھر کے دریچوں سے ہوا تک نہیں آتی

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ