عید الاضحی پرنظافت کے مسائل

صفائی نصف ا یمان ہے اور عید الاضحی پر قربانی کے فریضے کی ادائیگی بڑی سعادت اور ثواب کا کام ہے جس طرح وطن عزیزمیں قربانی کی عبادت کی پابندی کی جاتی ہے اس سے اس کے فرض کے درجے کا گمان ہونے لگتا ہے قربانی ایک عظیم عبادت اور کار ثواب اور دین ابراہیم کی نشانی اور شعائراسلام میں سے ہے لیکن قربانی کو نصف ایمان نہیں کہا گیا ہے جبکہ صفائی کو نصف ایمان واضح طور پر کہا گیا ہے میرے مقصد نہ تو تقابل ہے اور نہ ہی قربانی جیسی عظیم عبادت کے حوالے سے کوئی ایسی بات کہنا مطلوب ہے جو کوئی پوشیدہ مفہوم رکھتا ہو جیسا کہ آج کل اس کے حوالے سے بہت سے لوگ قسم قسم کی تاویلیں اور خود ساختہ متبادل تجویز کرتے دکھائی دیتے ہیں اسلام میں قربانی کا جو مقام ہے اس پر کسی شک و شبے کا ا ظہار ممکن نہیں اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی خود ساختہ رائے قائم ہو سکتی ہے میرے نزدیک جسے یہ سعادت مل جائے مہنگائی اور مشکلات کے اس دور میں جسے توفیق ملے صد شکر ادا کرنا چاہئے ان کلمات کے ساتھ مجھے یہ کہنے کی بھی اجازت دیجئے کہ اس فریضے کی ادائیگی کرتے ہوئے بلکہ جانور کی خریداری سے لے کر ذبیحہ کے وقت تک وما بعدہم اپنے ہی دین کے اس درس کا کہ صفائی نصف ایمان ہے جس طرح خلاف ورزی کررہے ہوتے ہیں اس پر توجہ کی ضرورت ہے قربانی کے جانور لانے کے بعد ہم چند دن دوچار دن بھی صفائی رکھنے کی ذمہ داری سے جو غفلت برتتے ہیں یہ بڑی تکلیف کا باعث امر ہے جس کے باعث گھر محلے اور گلی میں ہی سڑاند نہیں پھیلتی بلکہ اس غفلت کے باعث نالیوں کی بھی بندش کی نوبت آتی ہے گلی محلے میں ہر طرف گو بر پھیلائے بغیر بھی جانور کودوچار دن رکھ کر قربان کیا جا سکتا ہے بس تھوڑی سی مشقت اٹھانی پڑے گی۔تھوڑی سی اس ضمن میں بھی قربانی دی جائے تو یہ قربانی کے حقیقی مقصد کے قریب ہونے کا باعث بنے گا ہر سال عیدالاضحی کی آمد کے موقع پر ہر کونے میں قربانی کے جانوروں کی انتڑیاں اور دیگر باقیات کا پھیلائو اور اس کی صفائی کا خیال نہ رکھنے کے باعث ہفتہ بھر جو فضا طاری رہتی ہے کاش ایسا نہ ہوتا صفائی نصف ایمان ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس طرح جس طرح لوگ بڑھ چڑھ کر خوبصورت اور مہنگا جانور خریدنے اس کو سجانے گھمانے پھرانے میں دلچسپی رکھتے ہویں اس طرح نصف ایمان کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے اس سال جون جولائی کی یہ گرمی پھر موسم برسات اور ایسے میں ماحول کو آلودہ بنانے کا نتیجہ متعدی بیماریاں پھوٹ پڑنے کا سبب بن سکتا ہے ہوائی اڈوں کے ارد گرد فضلے کو ٹھکانے لگانے اور غلط طریقے سے باقیات کو تلف کرنے سے پرندوں کی یلغار اور اس جانب متوجہ ہونے سے ہوائی ٹریفک متاثر اور حادثات کا خطرہ ہوتا ہے ہرسال اپیل کی جاتی ہے مگر کم ہی کان دھرا جاتا ہے ۔بطور مسلمان کسی کو ہمیں صفائی کا درس دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے اور ہمیں اپنی شہری ذمہ داریوں سے خود آگاہ اور اس پر پورا پورا عمل درآمد کرنا چاہئے اس عزم مذہبی فریضے کی ادائیگی کے بعد صفائی ستھرائی حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھنے اور ہوائی ٹریفک کو محفوظ بنانے میں رکاوٹوں سے گریز کرنا چاہئے ہر سرکاری ادارے کی طرح میونسپل خدمات انجام دینے والے محکمے اور اس کے کارکنوں سے بہت اعلیٰ درجے کے خدمات کی توقع تو نہیں ہونی چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر ڈبلیو ایس ایس پی اور پی ڈی اے کے حکام کی عملی طور پر یہ نمایاں کوشش ہوتی ہے کہ سارا سال برتی گئی کوتاہی کا ازالہ کیاجائے عملہ بھرپورکوشش میں نظر آتا ہے ان کی جستجو اور انتظامات اس وقت تک ادھورے اورناکامی کاشکار ہوں گے جب تک ہر فرد ہر شخص اور ہر گھرانہ تعاون کامظاہرہ نہ کرے اور مقررہ مقامات پر الائشیں پھینکنے اور تھیلوں کا ترجیحی استعمال نہ کرے ہوسکے تو شہریوں کو تھیلوں کی فراہمی کی جانی چاہئے لیکن جہاں ڈیلیو ایس ایس پی کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے مناسب رقم کا اجراء نہ ہو رہا ہو وہاں اس قسم کی عیاشی کامشورہ ہی عبث ہے شہری اپنے طور پر آٹے کے تھیلوں کا ہی کم از کم استعمال کریں او وقت سے پہلے ان کا انتظام کرکے رکھیں پلاسٹک کے بڑے تھیلوں کا انتظام ہو تواحسن ہوگا جہاں کوئی شخص 35,30 ہزار یا پھر زائد لاکھوں تک میں جانور خرید کر اسے ذبح کرانے اور بوٹیاں بنا نے مستزاد قیمہ بنانے تک کے انتظامات پر رقم خرچ کر سکتا ہے اس کے لئے د و چارتھیلیوں کا انتظام کوئی مشکل کام نہیں بلکہ اس خرچے کو بھی قربانی کے لئے مختص رقم کا حصہ سمجھنا چاہئے تاکہ کسی کی قربانی کسی دوسرے کے لئے باعث کوفت اور شہری اداروں و نکاسی آب کے ذمہ داروں کے لئے وبال جان نہ بن جائے ۔ عیدالاضحی کے موقع پر قدرت عموماً تیز بارش کی مہربانی فرمایا کرتی ہے جس سے خون اور الائشیوں کی صفائی میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے بس تھوڑی سی توجہ دی جائے تو پانی کے بہائو میں رکاوٹ نہیں ہو گی اور پانی سب کچھ بہا لے جائے گی ا گرچہ اس طرح کے حالات سے ہمارا ہر سال واسطہ پڑتا ہے ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر وہ غلطیاں نہ دہرا رہے ہوتے مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا بنابریںحکومت اور شہری نظافت کے اداروں کو اس بارے شعور اجاگر کرنے اور عوام کو متوجہ کرنے کی مہم شرع کرنی چاہئے مانیٹرنگ کا سخت طریقہ کار بھی ضروری ہے اور اصول و ضوابط طے کرکے ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی کوئی انتظام اور طریقہ کار ہونا چاہئے قربانی کے جانوروں کے اعضا اور باقیات کو اگر اس طرح سے تلف کرنے اور ٹھکانے لگانے کابندوبست ہو کہ اسے قدرتی کھاد میں تبدیل کیا جا سکے اور پولٹری فیڈ بنانے کے لئے بروئے کار لایا جائے تو یہ ہم خرما وہم ثواب کے مصداق ہوگا۔ اس مسئلے کا ایک اجتماعی حل اجتماعی قربان گاہ قائم کرکے نکالا جا سکتا ہے جہاں ایک ہی جگہ سارے انتظامات ہوں جیسے عید گاہ ‘جنازگاہ ہوتی ہے اس طرح قربان گاہ بھی مختص کیا جائے تو یہ آسانی کا باعث ہوگا اور بہت سے شہری مسائل پیدا ہی نہیں ہوںگے ایک ایسی جگہ ہونی چاہئے جہاں شہریوں کوبھی سہولیات میسر آئیں اور صفائی کے مسائل بھی گھمبیر نہ ہوں بطور مسلمان ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو نظافت کی بار بار تاکید کرتا ہے ساتھ ہی نجاست اور گندگی ے بچنے کی بار بار تاکید ہوتی ہے۔نظامت ونفاست صفائی و ستھرائی اور طہارت و پاکیزگی سلیم الطبع انسان کی پہچان اور شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے ظاہر اور باطن دونوں کی صفائی بہت ضرور ی چیز ہے ۔ اسلام میں صفائی کا حکم صرف انسان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا جس چیز سے بھی تعلق اور واسطہ پڑتا رہتا ہے ان تمام چیزوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے مکان و دکان ‘مسجد و مدرسہ ‘گلی و محلہ اور بازار و سڑک نیز میلا کچیلا رہنے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو گندہ و آلودہ کرنے والوں کو سخت انداز میں تنبیہ کی گئی ہے حکومتی اداروں اور محکموں کے ساتھ ساتھ ہم اہالیان شہر کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس عید قربان کے موقع پر خاص طور پر صفائی کاخیال رکھیں اور دوسروں کے لئے زحمت کاباعث بننے سے گریز کریں یہ بھی کار ثواب اورعبادت ہی ہے۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت