قومی اسمبلی کی آئینی مدت

دو صوبائی اسمبلیوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی تحلیل کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں دوبارہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تاریخ کے تعین کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے بھی پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے چپ سادھ کر آئینی سوالات کو دعوت دی جبکہ اس حوالے سے تاریخ کے تعین کے ضمن میں حکومت نے جو آئینی سوالات محولہ بینچ کے حوالے سے اٹھائے ان کی ا ہمیت کو بھی نظرانداز نہیںکیا جاسکتا، بہرحال اب تو وقت بہت آگے جا چکا ہے اور موجودہ حکومت بھی آئینی مدت کے اختتامی لمحات کی جانب بڑھ رہی ہے اس دوران دیگر کئی معاملات پر بھی عدلیہ اور حکومت کے مابین ایک طرف کی ”مخاصمت” جاری ہے جسے بدقسمتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، اس ضمن میں خصوصی طورپر 9 مئی کے سانحے کے حوالے سے مبینہ دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات پر جس طرح عدالت عظمیٰ (ماضی میں اسی نوع کارروائیوں پر خاموشی اختیار کرنے) کے برعکس اب دوسرا رویہ اختیارکرتی دکھائی دے رہی ہیں اس سے نیا تنازعہ جنم لے چکا ہے تاہم ان حالات میں موجودہ حکومت کی آئینی مدت کے بعد اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کے انعقاد پر بھی بعض حلقے شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں جس پر وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت آئینی مدت سے تجاوز نہیںکرے گی۔ ایک بیان میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ آئینی مدت سے تجاوز کی قیاس آرائیوں کا حقیقت سے تعلق نہیں، جمہوریت اور آئین کی پاسداری کریں گے کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے، انہوں نے کہاکہ مخصوص ایجنڈے پر اقتدار پر بٹھائے جانے والے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکر چھوڑ دیتے ہیں، جہاں تک حکومت کے آئینی مدت سے تجاوز نہ کرنے کے عزم کا تعلق ہے اسے خوش آئند سوچ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی مدت میں ”ایک سال” کی توسیع کا بیانیہ خود حکومتی اتحاد کی جماعتوں ہی کے اندر سے چلایا گیا تھا اور اس حوالے سے ”معاشی ایمرجنسی” لگانے کے دعوئے کئے جاتے رہے ہیں، اس لئے اگر ایک وفاقی وزیر نے اس کی ”تردید” کی ضرورت محسوس کی ہے تو یہ ایک حوصلہ افزاء امر ہے کیونکہ مسلسل انتخابات منعقد کرانے سے ہی ملک کے اندر جمہوریت کو تقویت مل سکے گی اور جس طرح ماضی میں جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے اس کے نقصانات آج ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اس لئے موجودہ حکومت کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر ملک میں آزادانہ، منصفافہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناکر جمہوریت کا بول بالا کرے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال