دو آرزومیں کٹ گئے ‘دو انتظارمیں

وہ جو بھان متی نے کنبہ جوڑا تھا اس کی ساجھے کی ہانڈی اب بیچ چوراہے کے پھوٹتی دکھائی دے رہی ے ‘ اس حوالے سے بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور اہم مسئلے پر بات کرنا لازمی ہے یعنی وہ جو کچھ عرصے سے انتخابات کے التواء کی افواہیں پھیل رہی ہیں یا پھیلائی جارہی ہیں ‘ ان کی کچھ کچھ حقیقت اب واضح ہوتی جارہی ہے اور لگتا ہے کہ تحریک انصاف نے یہ جو آئی ایم ایف سے انتخابات بروقت کرانے کی ”ضمانت”مانگی ہے ‘ اس کے پیچھے یہی اطلاعات ہیں یاہوسکتی ہے ‘ اگرچہ آئی ایم ایف نے اس حوالے سے انکار کرتے ہوئے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں اس قدر دخیل ہونے کو خارج ازمکان قرار دے دیا ہے ‘ ادھر حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے الیکشن التواء کی افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا جارہا ہے اور دو یاتین ماہ میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں ‘ مگر ایک تکنیکی نکتے پر پہلے بھی بات ہوتی رہی ہے اور اب ایک بار پھر اسی کو بنیاد بناکر انتخابات امسال نہیں بلکہ اگلے سال فروری یا مارچ میں ہونے کی خبریں ایک بار پھرگردش کرنے لگی ہیں اور تکنیکی مسئلہ مردم شماری میں تاخیر اور اس کے بعد نئی حلقہ بندیوں پر مزید چارماہ کا عرصہ لگنے کی وجہ سے ”بروقت انتخابات” کے امکانات معدوم ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں ‘ آئینی تقاضے تو یہ ہیں کہ اگر موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں تو پھر ساٹھ دن اور اگر آئینی مدت سے ایک دو روز بھی پہلے موجودہ حکومت کی جانب سے اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں تو پھر نوے دن کے اندر اندر الیکشن کا انعقاد ہوگا قرائن سے یہی بات مترشح ہو رہی ہے کہ حکومت خود ہی آئینی مدت سے دویا تین روز پہلے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر سکتی ہے تاکہ انتخابات کے لئے تین ماہ کا عرصہ مل جائے ‘ لیکن اب جو یہ نئی صورتحال جنم لے رہی ہے یعنی مردم شماری میں تاخیر اور حلقہ بندیوں کا فیصلہ تو اس سے مزید چار ماہ درکار ہوں گے ‘ حالانکہ اس کے بھی حتمی طور پر عمل پذیر ہونے کے امکاانات یوں دکھائی نہیں دیتے کہ نئی حلقہ بندیوںپربھی سیاسی جماعتوں یا مختلف علاقوں میں انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی جانب سے اعتراضات کئے جاسکتے ہیں ‘ اور قانونی ”جنگ” پر مزید ایک ڈیڑھ مہینہ بھی لگ سکتا ہے یعنی جب تک نئی حلقہ بندیاں ہر قسم کے قانونی مبارزت سے فراغت پا کر آخری فیصلے تک نہ پہنچ جائیں تب تک انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جا سکتا ‘ اس لئے لگتا یہی ہے کہ الیکشن کھٹائی میں پڑنے کی خبروں میں کچھ نہ کچھ صداقت موجود ہے بقول سیماب اکبرآبادی
عمر دراز ‘مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں
بات ہو رہی تھی بھان متی کے کنبے کی ساجھے کی اس ہانڈی کی جو بیچ چوراہے کے بس پھوٹنے کو ہے اور وہ یوں کہ وہ جوایک بھارتی فلم میں فلمسار گووندا چچا اور بھتیجا کے دو کردار ادا کرتے ہوئے پاریش راول کی نظروں میں آجاتا ہے یعنی اس کی حقیقت کھل جاتی ہے تو وہ مالک سے کہتا ہے ۔”سرجی وہ جو چاچو ہے ‘ وہ چاچو نہیں اور وہ جو بھتیجا ہے وہ بھتیجا نہیں ‘ وہ چاچو ہی بھتیجا ہے اور بھتیجا ہی چاچو ہے” یعنی وہ جو اب تک ایک پیج پر تھے اب ایک پیج پر نہیں ہیں(ویسے تو ایک پیچ پر یہ کبھی نہیں رہے ‘ مصلحت ہی نے ان کو جوڑے رکھا تھا) اور ان میں سے ہر ایک کی مثال آفتاب مظہر کے اس شعر کی مانند تھی یعنی
چپ چاپ سہی ‘ مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی ‘ وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
تاہم اب جبکہ انتخابات میں بہت تھوڑا عرصہ رہ گیاہے تو ان کے اندرونی اختلافات کھل کرسامنے آنا شروع ہوگئی ہیں اور مولانا صاحب نے ”بلی کے گلے میں گھنٹی” ڈالتے ہوئے فرمایاہے کہ”دوبئی مذاکرات کے حوالے سے پی ڈی ایم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا”۔ یوں انہوں نے ” گھنٹی ” کو ”خطرے ناک” بناکر اعلان فرما دیا ہے یعنی بقول امیر خسرو
ابروباران و من دیار ستادہ بہ وداع
من جدا گر یہ کناں’ ابرجدا ‘ یار جدا
اس شعر کواحمد فراز نے مشرف بہ اردو کرتے ہوئے اس کی یوں وضاحت کی تھی کہ
یہ جدائی کی گھڑی ہے کہ جھڑی ساون کی
میں جدا گر یہ کناں ‘ ابر جدا یارجدا
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اور لیگ نون کے درمیان ”سب اچھا” کی صورتحال دکھائی نہیں دیتی اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے گزشتہ روز 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے جو دعویٰ کیا تھا کہ چین نے گزشتہ اسٹیبلشمنٹ سے کہنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کا تجربہ نہ کیا جائے ‘ تو ان کے اس دعوے کووزیر اعظم کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی حکام کی جانب سے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ‘ اس صورتحال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومتی اتحاد کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ساجھے کی ہانڈی پر ضربیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں (یاپھر پالیسی کے تحت جان بوجھ کر ایسا کیا جارہا ہے حالانکہ دوبئی مذاکرات کے حوالے سے بھی متضاد خبریں اور تبصرے سامنے آتے رہے ہیں جن سے باخبر حلقوں نے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں کی کہ پیپلز پارٹی کے کئی مطالبات کو جن میں پندرہ سے بیس ‘ پچیس حلقوں میں لیگ نون کے تعاون کی درخواست کی گئی تھی ‘ مسترد کر دیاگیا تھا ‘ البتہ چارپانچ انتہائی اہم پارٹی رہنمائوں کے مقابلے میں کسی لیگی امیدوار کو میدان میں اتارنے سے اصولی اتفاق ضرور کیا گیا ‘ اور یہی وہ نقطہ ہے جس نے ”اختلاف” کے شعلوں کو ہوا دی ہے ‘ تاہم ابھی تو انتخابات دور ہیں اور ایک پشتو مقولے کے مطابق”مقدمے کے انجام” پر نظر رکھو کے مصداق یہ دیکھنا ہے کہ انتخابی عمل شروع ہونے کے بعد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورتحال کیا ہوتی ہے ‘ ادھرصوبہ خیبر پختونخوا کی حد تک جمعیت اور اے این پی کے مابین بھی ”تلخ کلامی” کا آغاز ہونے کے شواہد سامنے آرہے ہیں ‘ خصوصاً ایمل ولی خان کے بیانات پرمولانا صاحب کا جزبز ہوکر انہیں ”برخوردارانہ مشورے ” دینا صورتحال کی وضاحت کے لئے کافی ہے’ رہ گئے ایم کیو ایم والے تو سندھ میں بھی سب اچھا نہیں ہے کی نشاندی ہو رہی ہے اور وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں کسی”اتفاق رائے”کی صورتحال جنم لے سکتی ہے ‘ ادھر بلوچستان میں بھی ”منتشر سیاسی صورتحال” کو خارج ازمکان قرارنہیں دیا جاسکتا ‘ یعنی
کبھی آہ لب پہ مچل گئی
کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے
یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں
کبھی بجھ گئے ‘ کبھی جل گئے

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال