عام انتخابات کی آمد اور سیاسی گھٹن

ایک سابق رکن قومی اسمبلی ماضی میں اپنے شہر کے انتخابی منظر نامہ کو دیکھ کر فکر مند ہوئے کہ اُنہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے اپنی جیت دکھائی نہیں دے رہی تھی، مَیں نے مشورہ دیا کہ اس بار خود انتخاب لڑنے کی بجائے اپنی پارٹی کے چند دوستوں کو آگے لائیں جو علاقہ میں عوامی سطح پر بڑے مقبول ہیں۔ میری بات سن کر بولے، سبحان اللہ ! ایک عرصہ اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کی، اُن کی خوشی و غم میں شامل ہوئے، ہسپتال جا جا کر عیادت کرتے رہے ، تھانہ کچہری اور واپڈا کے دفتروں میں ان کے ساتھ جاتے رہے، اب جب وقت آیا تو آپ کہہ رہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں اور جیت کر اسمبلی میں جا بیٹھیں۔ ان سے تو میرے بھائی، بیٹے اور بھتیجے بہتر ہیں کہ میری خدمت کا صلہ پائیں گے، یہ سوچ اور عمل صرف اپنے اس دوست سابق رکن اسمبلی تک محدود نہیں بلکہ اب تو قومی سطح کی سیاسی قیاد ت کھلے عام عہدوں اور نشستوں کی بندر بانٹ کر رہی ہے۔
عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور ابھی سے جوڑ توڑ کے سلسلے شروع ہیں ، یہ جو آئے روز خبروں میں بڑے بڑوں کی ملاقاتوں کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے تو یہ کسی سیاسی فکر، ملکی استحکام اور عوام کی داد رسی کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے بلکہ ذاتی مفاد ہی پیش نظر ہوتا ہے، ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ چار سیاسی رہنماء اپنے بیٹوں اور بیٹی کے لئے سب سے زیادہ متحرک ہیں اور انہیں وزیراعظم اور صوبوں کا وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں، ایک دو صاحبان خود وزیراعظم بننے کے لئے تیار ہیں اور کسی نے صدارت کی کرسی پہ نظر رکھی ہوئی ہے، یہ ان کی ترجیح ہے جبکہ بادشاہ گر اپنی ترجیحات سوچ رہے ہیں، ان کا اپنا ایک طریقہ کار ہے اور اسی کے مطابق ہمارے ہاں معاملات طے ہوتے ہیں، پاکستان بنتے ہی قائد نے جن ترجیحات کا تعین کیا تھا ان میں جمہوری نظام کا برقرار رہنا، آئین تیار کرنا، اداروں کو سیاست سے دور رکھنا اور عوام کو استحصالی قوتوں سے نجات دلانا شامل تھا مگر یہاں سیاست اور سیاسی نمائندوں کو خاندانوں میں تقسیم کر دیا گیا، سیاست خاندانی پیشہ بن چکی ہے، اسمبلیوں میں نہ بیٹھ سکے تو سینٹ کا رکن بن جاتے ہیں۔ عوام نے جنہیں اپنا معالج سمجھا ہوتا ہے وہ خود ہر مرض کا سبب ہیں، انہیں صرف اقتدار کا مرض لا حق ہے، پھر وہ کون سی بد عنوانی ہے جو قصر اقتدار سے شروع نہیں ہوتی، یہ المیہ ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا حاکم آیا ہو جسے ذاتی اقتدار کے سوا کسی ملکی مسئلہ میں دلچسپی رہی ہو ، بس یہی سوچ غالب رہتی ہے کہ اقتدار کا دائرہ کیسے وسیع کیا جائے اور اسے مستحکم رکھنے کو کسے ساتھ ملایا جائے اور کسے الگ کیا جائے۔ ملکی سیاست میں جب علمائے دین کو حکومت کی جھلک نظر آئی تو انہوں نے بھی اقتدار کے غاصبوں کا ساتھ دیا، اہل قلم کو جب ہدیہ ملنے لگا تو وہ بھی بساط بچانے والوں اور مہروں کے ثناء خواں بن گئے، سیاست نے اب صحافت کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ الیکشن سے پہلے کئی صحافی نگران حکومت میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ یہ بات
گردش کرنے لگی کہ فلاں فلاں صحافی کا نام بطور نگران وزیراعظم زیر غور ہے، انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے کارکن ہی کلیدی اور فعال کردار ادا کرتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بر سراقتدار آتے ہی کارکنوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، پاکستان نہ صرف اپنے ہاتھوں اپنی تقسیم کے عمل اور ایک اکثریتی صوبہ کی علیحدگی سے گزرا ہے بلکہ ہر نوعیت کی غیر ملکی بالادستی اور اندرونی تضادات کا شکار رہا ہے، ہماری اشرافیہ اور بہت سے مبصرین سمجھتے ہیں کہ نا کامیوں کی وجہ عوام کی ناخواندگی اور جہالت ، جمہوری نظام سے لا تعلقی اور حکمرانوں کی بد عنوانی ہے لیکن یہ عمومی تجزیئے سطحی ہیں اور ان قوتوں کو نمایاں کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جنہوں نے اس ملک کی سیاست کو ایک سمت دی۔ ملک کے پہلے دس سال کے نام نہاد جمہوری دور میں بھی سیاست دان ملک کا انتظام چلانے میں آزاد و خود مختار نہ تھے۔ سیاسی نظام کو اہل سیاست کے ذریعے مفلوج بنایا گیا اور سیاست دانوں ہی نے پارلیمانی جمہوریت کو تماشا بنا کر رکھ دیا۔ عوام میں نظریاتی شعور پیدا نہ ہو سکا اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی سیاسی تربیت نہ ہو سکی ۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے عمل کو اپنی مرضی کے تابع بنا لیا گیا ہے ، اب عوام کو اپنے کسی نظریاتی یا سیاسی فکر اور سیاسی وابستگی کے حوالے سے رائے دینے کا منصفانہ موقع نہیں ملتا، بس برادری، پیسہ، ووٹ کی خرید و فروخت، ذاتی فوائد، سرکاری فنڈ کی رشوت اور مذہبی گرفت کا ایک کھیل ہے جسے انتخابات کا نام دیا گیا۔ ایک اکثریت ذہنی اور سیاسی طور پر مجبور اور محکوم بن چکی ہے بلکہ اب تو شخصیات کی بت پرستی نے پڑھے لکھے طبقہ کو مطیع اور ذہنی بیمار بنا دیا ہے، انہی حوالوں سے جب سیاسی فکر رکھنے والے ہمارے چند دوست متوقع انتخابات کے بارے سوچتے ہیں تو عجیب سی گھٹن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں ہم خیال ہیں، کسی فکر اور نظریہ کے اعتبار سے ان میں کوئی تمیز نہیں ہے۔
ہر شہر میں ایسے سیاسی کارکن، اہل فکر اور دانشور موجود ہیں جو عوام کی صحیح نمائندگی بجا طور کر سکتے ہیں لیکن وہ بے مایہ اور گمنام ہیں، اب مرضی کے مطابق ساتھ دینے والوں، سرمایہ داروں، تاجروں، جاگیرداروں اور نوابوں نے انتخابی عمل کو اپنے قبضہ میں لیا ہوا ہے، بظاہر انتخابات ہوتے ہیں عوام کی رائے بکاؤ شے ثابت ہوتی ہے، وہی تین سو خاندان ہی بھیس بدل کر حکمرانی کرتے ہیں، ایک جمہوری نظام میں سیاست دانوں کی حیثیت فیصلہ کن ہوتی ہے لیکن یہاں ملکی سیاست اور سیاسی جماعتوں پر انہی خاندانوں کے افراد کا پہلے دن سے ہی قبضہ رہا، انہیں سیاسی فکر کی آگاہی ہر گز نہ تھی اور محض اقتدار کے حصول میں دلچسپی رکھتے، اس لئے سازشی عناصر جمہوری عمل مفلوج کرنے میں کا میاب ہوئے اور در پردہ اصل حکمران ہیں۔ ایک سیاسی کارکن دوست کی عادت ہے کہ وہ ہر انتخابی مہم کے دوران اپنے علاقے میں امیدوار کے سامنے کوئی مطالبہ نہیں رکھتا بلکہ سوال کرتا ہے کہ اس کی فکر کیا ہے اور امیدوار بننے کا کیا سبب ہے کہ تجھے ووٹ دیں؟ ہمیں سوال کرنا چاہئے ورنہ سمجھ نہ پائیں گے کہ اچانک کسی بھی شخص کو ایک بار پھر عقل کل بنا کرمسلط کر دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  معزز منصفوں !تصحیح لازم ہے