”شہر ناپرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں ”

مقابلے کے دو طریقے ہیں ۔ایک قانون کا طریقہ اور دوسرا قوت کا۔ پہلا طریقہ انسان کے لئے زیبا ہے اور دوسرا حیوانوں کے لئے۔چونکہ پہلا طریقہ اکثر غیر موثر ہوتا ہیلہٰذا دوسرے سے کام لینا ناگزیر ہو جاتا ہے ۔جب بھی کسی ملک وشہر میں حکومت برائے نام ہو،جس کے جی میں جو آئے وہ بلا روک ٹوک کرتا پھرتا ہو اور جہاں مجرم پارسا اور پارسا کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہو تو اصطلاح عام میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو شہر نا پرساں ہے ۔ شہر ناپرساں کی تعبیر کا درست اطلاق پاکستان اور خصوصاً موجودہ حکومت پر بڑا زبردست ہوتا ہے.بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت بالاتر قانون کا درجہ اختیار کر چکی ہے کہ جب طاقتور اپنی طاقت کے اظہار اور استعمال کا فیصلہ کر لیتا ہے تو مذہب ، عدالت،سیاست،یا کسیبھی دوسرے فورم کے لیے اس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ اس طاقت کو آگے بڑھنے سے روک سکے یا کم از کم اسے کہہ ہی سکے کہ جناب والا آپ جو کچھ کر رہے ہیں،درست نہیں ہے۔اسلام کے سیاسی نظام میں اور آج کے سیاسی نظام اور فلسفوں میں یہی فرق ہے کہ اسلام میں اصول وضوابط پہلے سے طے شدہ ہیں جن میں ردوبدل کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔حکومت نے جس پٹڑی پر چلنا ہے وہ متعین ہے اور اس کا کانٹا بدلنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔جبکہ جمہوریت سمیت آج کے تمام سیاسی نظاموں کی بنیاد اس پر ہے کہ انسانوں نے اصول بھی خود طے کرنے ہیں اور ان پر عملدرآمد کا اہتمام بھی خود ہی کرنا ہے۔۔اگر خوش قسمتی سے کسی ادارے میں کوئی ماما چچا مل گیا یا اپروچ قائد اعظم تک ہوئی تو آپ کا کام منٹوں کے حساب سے ہوگا،لیکن اگر آپ کا کوئی جاننے والا نہیں تو جلدی کیجئے وہاں سے نکلیں کیونکہ آپ شہر ناپرساں پہنچے ہیں،ایسا نہ ہو کہ پھندے کی رسی آپ کی گردن میں فٹ آجاے اور آپ کو کسی ناکردہ جرم کی پاداش میں پھانسی کے پھندے سے جہولنا پڑ جائے۔شہر ناپرساں کے مقدس آئین کے تحت خاموشی کی سزا پھانسی تھی اور کبھی کبھی یہ صورتحال بھی پیدا ہوتی کہ گلا چھوٹا اور پھانسی کا پھندا بڑا تو پھر جلاد بادشاہ سلامت سے ضرور پوچھ لیتا تھا اور بادشاہ سلامت اکثر یہ فرمان صادر فرماتے تھے کہ ایسے بندے کو تلاش کرو جس کی گردن میں یہ فٹ آجائے ۔اس کہانی کے کرداروں کو دیکھ کر آج کا نیا پاکستان ضرور یاد آجاتا ہے۔موجودہ دور کا انسان میانہ روی اور سادہ زندگی اختیار کرنا پسند نہیں کرتا ۔ایک دوسرے کے خاندان،رشتہ داروں،دوستوں اور دشمنوں میں مقابلہ کی جنگ جاری ہے ۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا کم ازکم برابر ہونے کے لیے ہر جائز وناجائز طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بچوں کو مہنگی تعلیم دلوانے کے لیے نرسری سے میٹرک تک کے تعلیمی اداروں میں داخلے جہاں صرف اعلیٰ فرنیچر اور خوبصورت عمارت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔وہاں کوئی استاد یا استانی بچے کو جھڑک نہیں سکتی سزا دینی تو دور کی بات ہے ۔ہر فرد ذاتی مفاد کے لئے کوششوں میں مصروف ہے ملک کی بہتری کا کسی کو خیال نہیں صحیح اور غلط میں فرق مٹ گیا ہے ۔دنیا کے تمام خطوں میں اور تمام مذاہب میں اچھی اور بری دونوں طرح کی روایات ہوتی ہیں ۔ انہیں لے کرہم اپنا منفرد نظریہ حیات تعمیر کر سکتے ہیں ۔مثال کے طور پر عیسائیت میں کہا جاتاہے کہ ہر ایک سے پیار کرو،دشمن کو بھی معاف کرو کسی پر ظلم نہ کرو لیکن عیسائیت کی تاریخ میں عورتوں کو چڑیل کہہ کر نذر آتش کرنا موجود ہے،اسی طرح ہندومت میں اھندسہ یعنی عدم تشدد کی تلقین ہے لیکن عورتوں کو ستی کی رسم میں نذر آتش کیا گیا،بابری مسجد شہید کردی گئی ۔مسلمانوں سے کہا گیا کہ جنگی قیدیوں سے اچھا سلوک کرو،دشمنوں کو بھی معاف کرو اور ان کے لیے دعا کرو،حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کی تیمارداری کرنے چلے گئے جو روز ان پر کوڑا پھینکتی تھی،لیکن آج مسلمان ممالک میں قتل وغارت گری کی جاتی ہے ۔شیعہ سنی فسادات میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے ۔عورتوں سے بد سلوکی جاتی ہے ۔ بجائے اس کے کہ ہم مغرب کے طاقتور ممالک کا دیا ہوا علم آرام سے پی جائیں اور اسے آفاقی تسلیم کر لیں ، ہم کیوں نہ اپنے خطے کی مثبت روایات سے سیکھیں۔
حضرت عمر فاروق جب فاتح بیت المقدس کی حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوئے تو اونٹ پر غلام سوار تھا اور اونٹ کی ڈور حضرت عمر فاروق کے ہاتھ میں تھی اس طرح خلافت راشدہ کا آغاز خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کے اس خطبہ سے ہوتا ہے جب انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسجد نبویۖ میں کھلے بندوں قوم سے خطاب کیا تھا اور اپنی پالیسیوں کا اعلان فرمایا تھا۔اس میں انہوں نے کوئی سیاسی فارمولا پیش نہیں کیا تھا اور نہ ہی دستور ی اصلاحات کے بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت محسوس کی تھی،بلکہ یہ فرمایا تھا کہ اصول وضوابط اللہ تعالی کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی شکل میں طے شدہ ہیں۔اگر میں ان کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو ،لیکن اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کر دو ۔سادگی اور میانہ روی میں بڑی برکت ہے ۔آپ اسے اپنا کر تو دیکھئے یقینا رشوت لینا بھول جائیںگے آج تک جتنے لوگ اس جہاں سے گئے خالی ہاتھ ہی گئے۔تربیت اور علم انسان کی شخصیت کے بنا اور بگاڑ میں نہات اہم کردار ادا کر تے ہیں ۔بعض اوقات تربیت کے اثرات علم کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اور سود مند ثابت ہوتے ہیں ،اگرہم اپنا متبادل علمی نظام تعمیر نہیں کریں گے توہم خود کو دوسروں کے زاوئیے سے دیکھیں گے اور دوسروں کے بنائے ہوئے معیار کے مطابق خود کو اچھا یا برا مانیں گے۔جب بات طاقت اور صرف طاقت کی بالادستی کے حوالہ سے ہو رہی ہے اور ہر معاملہ میں طاقت ہی کو حرف آخر قرار دیا جا رہا ہے تو قومی سلامتی کونسل کے قیام سے بھی صورتحال میں کوئی فرق رونما نہیں ہوگا یعنی جس کے ہاتھ میں طاقت ہوگی سلامتی کونسل بھی اسی کے ہاتھ میں ہوگی ۔خدا کرے کہ یہ فلسفہ پاکستانی حکمرانوں کو بھی سمجھ آجائے کیونکہ دستوری اکھاڑ پچھاڑ اور طاقت کی کشمکش سے نجات کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے ۔خدارا! قانون سب کے لیے کے اصول پر عمل کیا جائیں، نہیں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کی صدائیں ہر گلی،محلے سے اٹھیں گی۔

مزید پڑھیں:  تیل کی سمگلنگ روکنے کیلئے بلاتاخیراقدامات کی ضرورت