وہی مرغی کی ایک ٹانگ

نگران وزیر داخلہ کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں کم و بیش وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو قبل ازیں اس طرح کے. اجلاسوں میں ہوتی رہی ہیں. اصولی طور پر دیکھا جائے تو نیشنل ایکشن پلان پر اصولی طور پر وسیع بنیادوں پر اتفاق رائے کے بعد تفصیلی لائحہ عمل مرتب ہو چکا تھا جس کے بعد اس حوالے سے بار بار اجلاس منعقد کرنے اور ان نکات کو دہرانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ان پر عمل درآمد کا جائزہ لینے اور اس ضمن میں پیش آمدہ مشکلات کو دور کرنے والے مشاورت اور اجلاسوں کی ضرورت تھی، لیکن اس کی نوبت ہی نہ آسکی اب ایک مرتبہ پھر کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے نیز دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے وزیر داخلہ نے دہشتگرد اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کاروائی کر کے تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے منشیات کی سمگلنگ بھی روکنے کے لیے سخت اقدامات کی ہدایت بھی کی گئی ہے جہاں تک دہشت گردوں کی عوام کی جانب سے مالی معاونت کا تعلق ہے اس حوالے سے دو باتیں قابل توجہ ہیں اول یہ کہ مہنگائی کے اس دور میں جہاں عوام کے لیے جسم و جان کا رابطہ برقرار رکھنا دشوار ہو گیا ہے ایسے میں عوام کی طرف سے مشکوک عناصر کے ساتھ معاونت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا نیز اس طرح کے عناصر عوامی سطح عوامی سطح پر کم از کم چندہ نہیں کرتے اگر بالغرض محال ایسا ہو رہا ہے تو پھر یہ سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے جن سے اس درجے کے غفلت کی بہرحال توقع نہیں بنا بریں اس نقطے کو موقوف کر کے جائزہ لیا جائے تو البتہ اس امر کا نہ صرف امکان ہے بلکہ اکثر وبیشتر پیش آنے والے واقعات اس امر پر دال ہیں کہ ان عناصر کی جانب سے ڈرا دھمکا کر اغوا کر کے بھتہ اور تاوان کی وصولی کی مساعی ہوتی ہیں ممکن ہے تاجر اور سرمایہ کار ان کے دباؤ میں آ کر اور اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے درون خانہ مجبورا ان عناصر کو وقتا فوقتا بھتہ دیتے ہوں جس کی روک تھام متعلقہ حکام کی بنیادی ذمہ داری ہے ماضی میں بعض اداروں یہاں تک کہ صوبائی حکومت کی سطح پر بھی بھتہ دینے کی افواہوں کی شنید رہی ہے اس ضمن میں بھتہ دینے والوں کی مجبوری کا عذر ہو سکتا ہے جن کو تحفظ دینے میں ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لے کر ان کو تحفظ دینے کی ذمہ داری پر بطور خاص توجہ کی ضرورت ہے ان افراد کو تحفظ دینا حکام کی ذمہ داری ہے اور کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں کے مالی وسائل کی راہیں مسدود کرنا، ایک تیر دو شکار کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جس میں بدقسمتی سے حکام کو پوری طرح کامیابی نہ ہونا ہنوز سوالیہ نشان ہے دہشت گرد عناصر مالیاتی وسائل کے حصول کے لیے کوئی قانونی طریقہ تو اختیار نہیں کر سکتے لہذا غیر قانونی ذرائع کی روک تھام پہ بطور خاص توجہ دی جانی چاہیے،سمگلنگ اور منشیات کی تجارت ان کی آمدنی کے دو بڑے ذرائع ہیں چونکہ سرحدی علاقوں پر سیکیورٹی فورسز موجود ہیں اور سرحد پر طویل باڑ بھی لگی ہوئی ہے ایسے میں چوری چھپے ہی ایسا ممکن ہو سکتا ہے اور اگر تجارتی راستوں اور اداروں سے سمگلنگ اور منشیات کی سپلائی ہوتی ہے تو اس کی روک تھام کا تقاضا ہوگا کہ ان عناصر کے خلاف کارروائی سے قبل سرحدی گزرگاہوں پر حکومتی انتظامات و اقدامات اور متعلقہ حکام کی کارکردگی اور ممکنہ ملی بھگت جیسے عوامل کا جائزہ لیا جانا چاہیے اس کے بعد ہی تدارک کے اقدامات کی کامیابی کی شرح بڑھ سکتی ہے جہاں تک دہشت گرد عناصر سے کسی قسم کی مفاہمت اور مذاکرات نہ کرنے کے فیصلے کا تعلق ہے اس میں بظاہر تو کوئی قباحت نہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے کہ مسلح عناصر سے سختی سے نمٹا جائے لیکن اس کے باوجود بار بار بہر حال اس طرح کی مساعی ہوتی رہی ہیں اور اس فیصلے کے باوجود جس طرح پہلے اس کے ساتھ عمل درآمد کا سوال باقی رہا ہے اس مرتبہ بھی اسے دہرانے کی نوبت آنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن بہرحال وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی و نرمی کا امکان رکھتے ہوئے اس امر کی ضرورت ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد کو اس طرح جاری رکھا جائے کہ اس میں تعطل نہ آئے اس امر کی جانب توجہ ضروری ہے کہ حالات کی تھوڑی بہتری نظر آتے ہی حکام کی جانب سے تساہل برتنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، اور اس دورانیے کا دہشت گرد عناصر فائدہ اٹھا کر دوبارہ اکٹھا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وقفے وقفے سے وہ بار بار سامنے آتے ہیں اب جب کہ ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی بجائے تطہیر کا فیصلہ ہو چکا ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ اب یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کی نہ صرف مکمل تطہیر نہیں ہوتی یا وہ ہتھیار ڈال کر مطیع ہو کر خود کو قانون کے حوالے نہیں کرتے ان عناصر کے گروپوں میں پھوٹ پڑنے کی بجائے ان کا ایک دوسرے سے تعاون کا مظاہرہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے دہشت گردانہ مقاصد میں پوری طرح یکسو اور سنجیدہ ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے انسداد دہشتگردی فورس کو صوبے میں مضبوط بنانے کے جو تقاضے ہیں ماضی میں اس حوالے سے جو غفلت برتی گئی وفاق سے امداد اور وسائل ملنے کے باوجود آج وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کا ان سے کم درجے کے ساز و سامان اور اسلحہ کے ساتھ دلیری سے مقابلے تو کر رہے ہیںوہ اپنی جگہ ان کو جدید اسلحہ سے لیس کرنا اور جدید ساز و سامان اور دیگر سہولیات کی فراہمی حکام کی بنیادی ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں جب تک تمام نکات اور خامیوں کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کو دور کرنے اور مزید اقدامات نہیں ہوں گے اور تسلسل کے ساتھ یہ عمل جاری نہیں رکھا جائے گا اس طرح کے مزید اجلاسوں کی ضرورت پیش آتی رہے گی اور یہ لامتناہی سلسلہ نتیجہ خیز بھی نہیں ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال