اپنے ووٹ کی قدر و قیمت پہچانیں

پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میںہوتا ہے جہاں جمہوریت ہے ۔ اگرچہ یہ جمہوریت اتنی مثالی نہیں ہے جیسی جمہوریت مغرب میں ہے لیکن ملک کے سیاسی معاملات چلانے کے لیے جو نظام اس ملک میں ہے وہ بھی غنیمت ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی رہتی ہے ۔جس کے نتیجے میں ملکی سیاسی صورتحال کبھی بھی واضح نہیں ہوتی ۔ملک میں اس وقت مختلف سیاسی لوگ موجود ہیں اور سو سے زیادہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں ۔چند ایک جماعتیں پورے پاکستان کی سطح پر سیاست کرتی ہیں جبکہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں مخصوص علاقوں یا پھر کسی صوبہ تک محدود ہیں ۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اسے بہترین سیاسی قیادت کبھی بھی میسر نہیں رہی اس لیے پاکستان میں سیاسی اور انتظامی بحران ہر دور میں رہے ہیں ۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں زیادہ تر لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہیں اور جو تعلیم یافتہ ہیں انہیں تاریخ اور سیاسیات سے کچھ آگاہی نہیں ہے اس لیے زیادہ تر لوگ شخصیت پرستی ، قوم پرستی ، مذہب پرستی اور مفاد پرستی کو اپنا سیاسی فہم کہتے ہیں اور اس پر کاربند ہیں ۔ اس وقت ملک میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں سے کسی میں جمہوری ترتیب اور درجہ بندی نہیں ہے ۔زیادہ تر سیاسی جماعتوں پر کچھ خاندان قابض ہیں اور ہر خاندان کی چوتھی اور پانچویں نسل اب پاکستانیوںکی رہنمائی کے لیے خود کو پیش کررہی ہے ۔ پاکستان میں سیاست کو دولت کمانے اور برسوں میں امیر ہونے کا واحد ذریعہ سمجھ لیاگیا ہے اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے ۔ اس لیے کہ جو سیاست میں داخل ہوتا ہے چند برسوں میں اس کے پاس بے تحاشا دولت آجاتی ہے جو عمومی طور پر کسی ملازمت یا کاروبار سے ممکن نہیں ہوتا ۔ بیشتر سیاسی رہنما کچھ بھی نہیں کرتے لیکن ان کے ماہانہ خرچے کروڑوں میں ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس جائیدایں اور قیمتی گاڑیاں ہوتی ہیں اور وہ ان کے لیے کسی کے سامنے بھی جواب دہ نہیں ہوتے ۔ اگر ہم سندھ سے شروع کریں تو وہاں دیہی سندھ پر گزشتہ پانچ دہائیوںسے پاکستان پیپلز پارٹی حکمرانی کرتی آرہی ہے جبکہ کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر قومی مومنٹ برسر اقتدار رہی ہے ۔ سندھ کو ان لوگوں نے مل کر ترقی نہیں کرنے دیا اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہاں سیاسی شعور نہ ہونے کے برابر ہے جس کا فائدہ مخصوص طبقہ اُٹھا تا ہے ۔ بلوچستان میں حکومت سرداروں ، میروں، قوم پرستوں اور مولویوں کی ہوتی ہے یہ سب ملک کر حکومت کرتے ہیں اور بلوچستان کی ترقی اور آبادی سے ان کو کچھ سروکار نہیں ہے ۔پنجاب میں گزشتہ چار دہائیوں سے مسلم لیگ ن۔ مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت رہی ہے ۔پنجاب میں چند بڑے شہروں پر خاص توجہ دی گئی اور باقی پنجاب کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔پنجاب میں چند خاندانوں کو ہی سیاست کا اہل سمجھا گیا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے ان کو مات دے دی تھی اور نااہلی کے ایسے ریکارڈ قائم کیے کہ اس کا جواب نہیں ہے ۔ خیبر پختونخوا میں گزشتہ چار دہائیوں میں قوم پرستوں ، مولویوں ،اور پھر گزشتہ دس برسوں تک تحریک انصاف کی حکومت رہی ۔قوم پرستوں کے دور میں ترقی اور کرپشن ساتھ ساتھ چلتی رہی ۔ مولویوں کے دور میں ترقی اور کرپشن دونوں میں کمی دیکھی گئی اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں یہاں کے سیاست نے ابتدائی پانچ برسوں میں وفاق مخالف اور چار برسوں میں صرف وفاق کے لیے قربانی کا کام کیا یوں آسان لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ صوبہ ان چار دہائیوں میں اپنے وسائل سے محروم ہوتا گیا، یہاں امن و آمان کا مسئلہ بڑھتا رہا ، یہاں سے کاروبار پنجاب منتقل ہوتے رہے اور ترقی اور خوشحالی کا پہیہ یہاں بھی حرکت میں نہیں آیا ۔ آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاست کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وفاق میں جس کی حکومت ہوگی وہاں بھی ان کی حکومت ہوگی ۔سیاست کو گزشتہ چند دہائیوں میں اتنا داغ دار کیا گیا ہے کہ اب اس پر یقین کرنے کوکوئی تیار ہی نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ سیاست میں اچھے لوگ نہیں ہیں ،قابل لوگ نہیں ہیں مگر سیاست میں بیشتر لوگ وہ ہیں جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نالائق ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنا ذاتی مفاد ہے جس کے لیے وہ ملک کی ترقی اور بہبود کو بھی داؤ پر لگا لیتے ہیں ۔ سیاست اس حدتک خراب ہوگئی ہے کہ سر عام اس ملک میں سینٹ کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے کروڑوں روپے ان ممبران اسمبلی نے لیے جو یہ عہد کرکے اسمبلی میں بیٹھے تھے کہ وہ پاکستان کے آئین اور قانون کی پاسدار ی کریں گے اور ملک کو ترقی کی راہ پر چلائیں گے ۔ یہاں سیاست کرنے والوں پر مفاد پرست سرمایہ کاری کرتے ہیں اور وہ جب اقتدار میں آتے ہیں تو اپنا سرمایہ کئی ہزار گنا سود سمیت وصول کرتے ہیں ۔ جن ممالک میں سیاست دان دیانت دار اور ملک کے وفادار ہوتے ہیں وہاں ترقی اور خوشحالی آتی ہے جبکہ جہاں جہاں بددیانت اور مفاد پرست لوگ سیاست کے پیشے سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو وہاں غربت اور تباہی آتی ہے ۔ آج کل پھر انتخابات کا موسم ہے ۔ شعور کا مظاہر ہ کریں اور ذات ، برداری ، علاقائیت ، مذہبی وابستگی اور ذاتی پسند و ناپسند کی جگہ دیانت دار ، تعلیم یافتہ اور خدمت سے سرشار لوگوں کو ووٹ دیں ۔ اس لیے کہ جب اچھے لوگ اسمبلیوں میں جائیں گے تو وہ شخصی اور گروہی مفاد کی جگہ پاکستان کا مفاد سوچیں گے ۔اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو اچھے لوگ ضرور ملیں گے ۔ اس بدترین سیاسی دور میں بھی کچھ لوگ ہیں جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ سیاست عبادت کی طرح ہے ان لوگوں نے قربانیاں دی ہیں ۔ان کا انتخاب کریں جبکہ ہم ایسے ایسے لوگوں کو الیکشن میں کامیاب کرتے ہیں جو ہر الیکشن کے بعد اپنی پارٹی بدل لیتے ہیں ، اپنے مفاد کے لیے ان تمام گزشتہ لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں جن کے ساتھ حکومتوں میں رہے اور عیاشی کرتے رہے ۔ کسی بھی سیاسی پارٹی میں اچھے اور بُرے دونوں طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں آپ اچھے کا انتخاب کریں اور بُرے لوگوں کو مسترد کردیں ۔ سیاسی جماعتوں کے لیے آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کریں ۔ اس لیے کہ یہ سارے سیاسی لوگ چند دن بعد مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھیں گے اور آپ ان کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے ۔ آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے ۔اس کا حقیقی استعمال کریں اور ان لوگوں کو منتخب کریں جو اس قابل ہوں کہ آپ کی نمائندگی کرسکیں ، قانون سازی کرسکیں اور اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کا سوچ سکیں ۔ آپ کے دئیے ہوئے ووٹ کا احترام کریں ، لوٹا نہ بنیں ۔ جو لوگ آپ کا ووٹ لے کر اپنے عہد سے پھر گئے ہیں ان کو مزید نہ آزمائیں ۔جو صرف ووٹ مانگنے کے لیے آپ کے گھر پر آئے اس پر اعتماد نہ کریں بلکہ ان لوگوں کو اپنا نمائندہ بنائیں جو آپ کو کل بھی باآسانی دستیاب ہوں ۔ آج کل ہر علاقے کے بدمعاش اور سمگلر نمود و نمائش کے ساتھ آپ سے ووٹ مانگنے آئیں گے ان کو ووٹ دیکر اپنے مستقبل کو مزید خراب نہ کریں ۔ جن کے پاس خیالی باتیں ہوں اور عملی منشور نہ ہو ان کو بھی ووٹ نہ دیں ۔ تعلیم یافتہ افراد کا انتخاب کریں ۔وہ لوگ جو کسی بھی سیاسی نظرئیے سے وابستہ ہیں اور مسلسل وابستہ ہیں اور خدمت خلق کو اپنا میرٹ سمجھتے ہیں ان کا انتخاب کریں ۔ اگر آپ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کے علاقے میں جو امیدوار ہے وہ آپ کے سیاسی نظریات کا حقیقی پیروکار نہیں ہے ۔کرپٹ ہے یا اہل نہیں ہے تو اس کو ووٹ نہ دیں اس لیے کہ آپ جان بوجھ کر ایک ایسے شخص کو ووٹ دے رہے ہوں گے جو آپ کے سیاسی ویژن سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو وہ وہی کرے گا جو اس کے مفاد میں ہوگا ۔ سیاست میں اگر دیانت دار اور مخلص لوگ حصہ لیں اور کامیاب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچیں تو ہمارے ملک کے لیے بہتر قانون سازی اور منصوبہ بندی کرسکیں گے ورنہ وہی ہوگا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہورہا ہے ۔ وہ بدمعاش ،ان پڑھ اور جاہل لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے اور ملکی وسائل اور ترقی کو کرپشن اور اپنی نااہلی کی نذر کریں گے ۔اور آپ مزید بدحال ہوتے چلے جائیں گے ۔ ان دنوں بہت سارے لوگ آپ کے گھروں اور علاقوں کا رخ کریں گے۔ کسی کے پاس قوم پرستی کا چورن ہوگا ، کسی کے پاس مذہبی کارڈ ہوگا ، کسی کے پاس ترقی اور خوشحالی کے نت نئے قصے ہوں گے مگر آپ باشعور ہیں ان فصلی بٹیروں کی جگہ اس شخص کا انتخاب کریں جو آپ کا مقدمہ صوبائی اور وفاقی سطح پر لڑ سکے ۔ غلط اور نہ اہل لوگوںکو ووٹ دے کر اگلے پانچ برس ان کو گالیاں دینے سے بہتر ہے آج اچھے اور بہتر کا انتخاب کریں ۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت