بلا وجہ کی سعی

8 فروری کو شیڈول الیکشن ملتوی کرانے کے لیے ایک اور قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔وطن عزیز پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں مگر اس دوران سینیٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کی غرض سے تیسری قرارداد جمع کروائی گئی ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ شدید سردی اور برف باری خیبرپختونخوا میں شہریوں کو ساز گاز ماحول میں ووٹ ڈالنے سے روک رہی ہے۔ امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل الیکشن کے التوا ء سے متعلق سینیٹ میں جمع کرائی گئی قرارداد کو منظور کیا گیا جس کے جواب میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے بھی الیکشن مقررہ وقت پر کرانے کی قرارداد بھی سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرائی تھی۔ تاہم دو روز قبل سینیٹ سیکرٹریٹ میں الیکشن ملتوی کرانے کے لیے دوسری قرارداد بھی جمع کرائی گئی تھی۔یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر مخصوص سینیٹروں کی جانب سے ہی بار بار انتخابات کے انعقاد کو ملتوی کرنے کی قراردادیں کیوں جمع کرائی جارہی ہیں سینیٹروں کا انتخابی عمل سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ عوام میں جا کر انتخاب لڑ کے آئے ہیں اس کے باوجود ان کی جانب سے مسلسل کوشش ہو رہی ہے کہ ملک میں ایک جمہوری عمل کا انعقاد نہ ہو سکے اور ان کی مرضی و منشاء کے مطابق انتخابات ملتوی کئے جائیںجو معروضات ان کی جانب سے پیش کی جارہی ہیں وہ ایسے سنگین اور لاینحل نہیں کہ ان کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کر دیئے جائیں اس لئے کہ اس سے زیادہ مشکل اور نامساعد حالات میں بھی انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے بنا بریں کہا جارہا ہے کہ محولہ عناصر اپنے مقاصد کے لئے ملک کے سب سے بڑے منتخب آئینی ادارے سینیٹ کا پلیٹ فارم استعمال کررہے ہیں ان میں سے بعض وہ سینیٹرز بھی شامل ہیں جن پر ان کے بطور سینیٹر انتخاب کے وقت کچھ بے ضابطگیوں کے الزامات بھی لگے تھے۔ بہرطور فی الوقت اہم بات یہ ہے کہ ملک میں 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونے چاہئیں۔ سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور سماجی تقسیم سے پیدا شدہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ رائے دہندگان کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ موقع دیا جائے تاکہ منتخب عوامی قیادت میں سے اکثریتی جماعت حکومت سازی کرے اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کے خاتمے کو یقینی بنانے والی پالیسیاں وضع کرنے کے ساتھ ساتھ گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی و سماجی ماحول میں گھلنے والے نفرتوں کے زہر کا علاج بھی دریافت کرے۔ یہ علاج صرف اور صرف جمہوری ماحول میں ہی ممکن ہے۔ہمارے تئیںانتخابات کے التواء کے لئے سرگرم عمل سینیٹرز صاحبان دستور اور جمہوریت سے کھلواڑ کرنے کے درپے ہیں۔ ملک کے معروضی حالات اور بعض سنگین مسائل کسی بھی صورت انتخابات کے التواء میں معاون نہیں۔ اصلاح احوال اور مسائل کے حل کے لئے عوام کی منتخب قیادت کے حق حکومت سازی کا احترام بہت ضروری ہے۔سینیٹ میں یکے بعد دیگرے انتخابات ملتوی کرنے کے بارے میں بار بارکے پراسرار قراردادوں کے پس پردہ کردار اور ان کے مقاصد کیا ہیں اس بارے تو وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اس کے باعث پہلے سے شکوک و شبہات کا شکار انتخابی ماحول مزید غیریقینی کی کیفیت اختیار کر جانا فطری امر ٹھہرتاہے۔عام انتخابات کے حوالے سے ملک میں بعض سیاسی مسائل اور ایک بڑی جماعت کو بے نشان انتخابات لڑنے پر مجبور کرنے کے عمل سے بھی انتخابی ماحول متاثر ہوا ہے بہرحال اگرچہ یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے لیکن اس کے باوجود اس کے سیاسی اثرات سے صرف نظرممکن نہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی جس انداز میںانتخابی تیاریاںہورہی ہیں وہ بھی اپنی جگہ بے یقینی کی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں ان تمام حالات و واقعات کے باوجود بد قسمتی سے انتخابات اگر چند دنوں ہفتوں یا مہینوں کے لئے ملتوی ہوئے تو اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ انتخابات سے خوفزدہ ہیں۔ اس امر پر دو آراء نہیں کہ 8 فروری کے انتخابات کا اپنے وقت پر انعقاد ملک، جمہوریت، سیاسی و معاشی استحکام کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ جو لوگ انتخابات کے التواء کا مطالبہ کررہے ہیں یا سینیٹ میں قراردادیں پیش کرتے ہیں وہ جمہوری عمل کی راہ میں کانٹے بورہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  حساب کتاب