انسداد گداگری کے تقاضے

پشاور ہائی کورٹ نے بچوں کے بھیک مانگنے پر قابو نہ پانے کی صورت میں وزیر اعلیٰ کو عدالت طلب کرنے کا عندیہ سنجیدگی سے اس معاملے کانوٹس لینا ہے۔چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ روزی کمانے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے، رات 9 بجے کے بعد بچے سڑک پر نظر نہیں آنے چاہئیں، اس مسئلے کو ٹھیک نہیں کیا تو ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کو طلب کروں گاچیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا توآرڈر میں لکھوں گا کہ انتظامیہ بھی حصہ دار ہے۔بچوں کے دن کے اوقات میں بھیک مانگنے کاعمل بھی توجہ کا متقاضی ہے جس سے قطع نظر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے رات کے اوقات میں بچوں کی مختلف اشیاء فروخت کرنے یاپھر اس کی آڑ میں بھیک مانگنے کے عمل کا سختی سے نوٹس لیا ہے ان کے نوٹس لینے اور سخت تنبیہ کے بعداس میں کمی کی توقع تو ہے لیکن اصل مسئلہ ان بچوں کے بھیک مانگنے کی وجوہات کا جائزہ لے کر اس کا حل نکالنا ہے بچوں سے پیشہ ورانہ طور پربھیک منگوانے کا جو منظم دھندہ جاری ہے ان گروہوں کے خلاف سب سے پہلے کارروائی ہونی چاہئے ساتھ ساتھ پیشہ ور گداگری کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے جو ضعفاء خواتین اوربچے ناداری اور بے بسی کے باعث بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ان کی نظامت سوشل ویلفیئر کی جانب سے کفالت ہونی چاہئے ساتھ ہی ساتھ مختلف سماجی و رفاعی تنظیموں کوان کے کوائف اور حالات کی تصدیق کے بعد اگرسفارش کی جائے تو یہ کارآمد اور مفید ہوگا۔ گداگری کی روک تھام اس صورت میں ہی ہونا ممکن ہوسکے گا جب اس کی ہر سطح پرحوصلہ شکنی اور ممانعت ہو اور حکومت و ریاست مجبوری کے عالم میں بھیک مانگنے والوں کی کفالت کا ذمہ اٹھائے۔

مزید پڑھیں:  معزز منصفوں !تصحیح لازم ہے