ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح

اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ سیاستدانوں میں صرف سائیں منظوروسان ہی سیاسی پیشگوئیوں کا ”دھندہ” کرتے ہیں’ اگرچہ وہ دیگر ستارہ شناسوں ٹیلی کارڈز ماہرین ، نکتائیوں اور پامسٹوں کی طرح مستقبل بینی کے عوض پیسے نہیں لیتے، بس کبھی نہ کبھی ”دل پشوری”کرنے کے لئے آنے والے سیاسی حالات کے بارے میں پیش بینی کا شوق پورا کر لیتے ہیں ‘ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ پرویز خٹک نے بھی اس کام میں ہاتھ ڈال لیا ہے ‘انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھرنے کی پیشگوئی کر چکا ہوں، اس کے علاوہ وہ جب سے پی ٹی آئی پی قائم کرکے تحریک انصاف کے سربراہ کے کردار کے حوالے سے منفی قسم کے تبصرے فرماتے چلے آرہے ہیں اور سارا ملبہ اپنی سابق جماعت کے سربراہ پر ڈالتے چلے آ رہے ہیں اس پر بھی تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبردے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خواروزبوں
اس شعر کی وضاحت اس حوالے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پوے نوسال تک تحریک کے ساتھ وابستگی اور پانچ سال بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا قدم قدم پر اپنی حکومت کی ”کارکردگیوں” پرفخر سے سر بلند کرنے اور عوام کی خدمت کے دعوے کرنے کے بعد اب نا کامیوں کو ”تسلیم”کرتے ہوئے خود کو کس اخلاق سے بری الذمہ قرار دے رہے ہیں جبکہ بعد میں چار سال تک مرکزی کابینہ کے ایک اہم رکن کے طور پر بھی حکومت کی ہر ”نا کردنی”سے خود کو علیحدہ رکھنے پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں’ان نوسالوں کے دوران اگر وہ سابق جماعت کی غلط پالیسیوں عدم اتفاق رکھتے تھے تو انہوں نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ا قتدار کو ٹھوکرمارنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا ؟ صوبے کے عوام اس وقت صوبائی حکومت کے سربراہ کے طور پر خٹک صاحب نے بار بار اسلام آباد جا کر عمران خان سے صوبے کے بقایاجات طلب کرنے کے ضمن میں خان صاحب کی طرف سے ”وعدوں کے لالی پاپ” چوسنے سے بالآخر انکار کیوں نہیں کیا، اور کرسی اقتدار سے لسوڑے کی طرح چمٹے رہے ؟ ۔ دوسرے دور میں انہیں ”بے نیل و مرام” کر کے خٹک صاحب کو صوبے سے دیس نکالا دیکر جس طرح مرکز میں ایک ”بے ضرر”قسم کی وزارت پر کیوں ٹرخایا گیا’ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پورے پونے چار سال اسی وزارت پر”ٹرختے رہے” مگر پارٹی تج دینے کی ہمت پھربھی نہ کر سکے، اب تمام برائیوں کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالتے ہوئے موصوف کے سابقہ پارٹی کے خلاف ”پیشگوئیوں” سے عوام کے دل گرما رہے ہیں حالا نکہ صورتحال تو مرحوم دوست مقبول عامر کے اس شعر سے واضح ہو رہی ہے
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشہ رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو ”پرویز”کے کام آئی ہے
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ” اپنی ” جماعت نون لیگ کے تحت نواز شریف کی ”نااہلی” کے بعد اقتدار سے محروم کئے جانے کے بعد وزارت عظمیٰ کو ”مسلط” کئے جانے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”میں وزیر اعظم نہیں تھا ‘ مجھے ملازمت دی گئی تھی” گویا وہ ایک بھارتی فلمی گیت کی یاد دلاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ
مجھے دنیا والو اناڑی نہ سمجھو
پیتا نہیں ہوں پلائی گئی ہے
”بے چارہ” شیخ رشید بھی گلہ مند نظر آتے ہیں ‘ حلقہ این اے 56 میں انتخابی مہم خود چلانے کے بارے میں بیان دیتے ہوئے فرزند راولپنڈی نے کہا کہ جن کے لئے چلہ کاٹا انہوں نے بھی ہمارے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتار دیتے ہیں ‘ دراصل موصوف کا اشارہ سابقہ اتحادی جماعت تحریک انصاف کی طرف تھا جس نے عمران خان کی ہدایت پر شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کے مقابلے میں حلقہ این اے 56 اور این اے 57 میں ان کی حمایت کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی جماعت کے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیئے (جبکہ اب پارٹی کے ہر امیدوار کو انتخابی نشان الیکشن کمیشن کی صوابدید بن چکا ہے) تاہم شیخ رشید کی اس صورتحال پر اور وہ خاص طور پر ان کی جانب سے گلہ سامنے آنے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ
مری نماز جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے
بات تحریک انصاف کے امیدواروں(جو آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑیں گے) کے بارے میں ہو رہی تھی تواس ضمن میں تحریک کے نئے چیئرمین(؟)بیرسٹر گوہر کو چینک کا انتخابی نشان الاٹ کردیاگیا ہے ‘ معلوم نہیں اس پر ان کا کیا ردعمل سامنے آیا ہے تاہم انہیں شکر کرنا چاہئے کہ چینک کا انتخابی نشان دے کر ان کو بچا لیاگیا ہے وگر نہ تو ایک اور نشان ”لوٹا” کی شکل بھی چینک سے ملتی جلتی ہے شاید الیکشن کمیشن کے منظور شدہ نشانات میں ”لوٹا” موجود ہی نہیں وگر نہ سی نہ کسی کا ”لوٹے” کے نشان سے بھی پالا پڑ سکتا تھا۔ ادھر تحریک انصاف کے ایک اور رہنماء جو ان دنوں خبروں میں بہت زیادہ ان ہیں یعنی شیر افضل مروت ان کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے کہ عمران نے متنازعہ ٹکٹوں کو واپس لینے کا کہا ہے بقول موصوف انہوں نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی جہاں ان کے علاوہ علیمہ خان ‘ بشریٰ بی بی ‘ اعجاز بٹر اور نعیم پنجوتھا بھی موجود تھے ‘ شیر افضل مروت نے بانی پی ٹی آئی کوٹکٹوں کے متنازعہ اجراء پر تحفظات سے آگاہ کیا جس پر عمران خان نے پی ٹی آئی کے متنازعہ ٹکٹوں کو واپس لینے کا کہا’اب موجودہ صورتحال میں لفظ ” متنازع” کی وضاحت کیسے کی جا سکے گی اس لئے کہ اب تو سب”آزاد”پنچھی ہیں اور جس کا بھی دل چاہے وہ خان صاحب کی تصویر کے پوسٹر’ بینرز لگا کر یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہی پارٹی کا اصل امیدوار ‘ ویسے اگر کسی کو”متنازعہ” قراردے کر پارٹی کے امیدوار کے طور پر خارج کر دیا گیا تو وہ مرزا غالب کے الفاظ میں کہنے پر مجبور ہو گا کہ
میں نے کہا کہ بزم ناز غیرسے چاہئے تہی
سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
ایک اور خبر کے مطابق شیر افضل مروت کو کونج (تلیئر) کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا ہے اس نے ایک اور روایتی نغمے کی یاد دلادی ہے کہ
کونج وچھڑ گئی ڈراروں تے لبھدی سجناں نوں
میں روواں تے لوکی ہسدے
پیار مرے دا پتانئیں دسدے
میں لا کے پراڈجاواں
ویسے تازہ صورتحال کے مطابق پی ٹی آئی سے بلے کاانتخابی نشان چھن جانے کے بعد پارٹی کے ہر امیدوار کی کیفیت ڈارسے بچھڑ جانے والی کونج سے مختلف نہیں ہے ۔ انتخابات کے انعقاد کے بعد جس طرح 2018 ء میں ”آزاد”امیدواروں کے طور پر سینیٹ کے انتخابات میں شامل لیگ نون کے امیدواروں کی کامیابی کے بعد اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں آزاد پنچھیوں کی جو حالت تھی کیا اب تحریک کے آزاد ممبران بھی اسی کیفیت سے دو چار ہونے والے ہیں یعنی بقول مجروح سلطان پوری
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
سیاسی رہنمائوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے حوالے سے اگرچہ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کا مقولہ اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آرہا ہے اورایک طویل عرصے سے خصوصاً انتخابات کے ہنگام ماضی کے حلیف بھی ”حریفوں” کی صف میں شامل ہو کر کبھی بے پر کی اڑاتے ہیں کبھی بلاجواز الزام تراشی پر اتر آتے ہیں لیکن بعض الزامات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوتی ہے اوپر کی سطور میں ہم نے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے دعوئوں کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی تھی اب ان کے ایک سابق ”ہم جماعت”(یہاں جماعت سے مراد تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ سیاسی پارٹی ہے) یعنی جب خٹک صاحب بھی بقول شاعر کبھی ہم بھی تم سے تھے آشنا ‘ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ‘ پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے ‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنماء اور پارٹی کے موجودہ سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ پرویز خٹک نے اتنے عینک نہیں بدلے جتنی پارٹیاں تبدیل کی ہیں ‘ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ پرویز خٹک کی دن میں کئی بار ذہنی کیفیت تبدیل ہوتی ہے’ جب خیبر پختونخوا کا پیسہ لوٹ کربنی گالا جا رہا تھا پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے خٹک صاحب دوسروں پرالزام تراشی کے بجائے اپنے گناہوں کی معانی مانگیں دوسروں کوچورکہنے والے پرویز خٹک خود بڑے چور کے پہرے دارتھے ‘ فیصل کریم کنڈی کے پرویز خٹک پر عینک اور پارٹیاں تبدیل کرنے کے درمیان تقابلی جائزے پر ہمیں بھارت کے آنجہانی پردھان منتری یعنی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ بیان یاد آگیا جو انہوں نے (قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں) حکومتوں کی تبدیلی پرتبصرہ کرتے ہوئے دیاتھا ایک صحافی کے پاک بھارت تعلقات اور کشمیر میں استصواب رائے کے حوالے سے کئے گئے سوال پر کہ آپ پاکستان کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کرتے ‘ اس سوال پر جواہر لعل نہرو نے کہا میں وہاں کس سے بات کروں ‘ میں اتنی جلدی اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں ‘ بہرحال اب اس کا جواب پرویز خٹک کے ذمے بنتا ہے کہ انہوں نے اتنی عینکیں تبدیل نہیں کیں جتنی سیاسی جماعتیں بدلی ہیں ‘ گویا ان میں مستقل مزاجی سرے سے موجود ہی نہیں بہرحال دیکھیں کہ اب اس”تبدیلی ” کے الزام کاجواب کیا آتا ہے ‘ یعنی بقول شاعر
ہم ریل کی پٹڑی کی طرح مل نہیں سکتے
بس ساتھ سفر کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل