وسطیٰ ایشیائی ممالک تجارتی اور اقتصادی ترقی

دنیا کی ترقی کا واحد راستہ بین الملکی تجارت ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ دیکھیں تو ان ممالک میں آپ کو امن ملے گا اور وہ تجارت میں مصروف ہوں گے ۔ اس تجارت سے ان کے ملک میں روزگار مہیا ہوتا ہے اور ان کا اقتصادی ڈھانچہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے ۔ امریکہ ، جرمنی ، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک نے تجارت کی بنیادپر ہی ترقی کے زینے طے کیے ہیں ۔ اب اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے ۔ جن ممالک نے تجارت کو توجہ نہیں دی ان ممالک میںبے روزگاری ، بدامنی اور غربت کا دور دورہ ہے ۔ وسطیٰ ایشیاء کے ممالک کو روس سے آزاد ہوئے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے ۔ یہ ممالک صنعتی طور پر پہلے سے ترقی یافتہ تھے ۔ان ممالک میں مواصلات اور توانائی حاصل کرنے کے ذرائع دنیا میں مثالی تھے ۔ ماسوائے خوراک کے وہ باقی تمام شعبوں میں خود کفیل تھے ۔ لیکن باوجود اس سب کے ان کا دنیا کے تجارتی اور اقتصادی سرکل میں حصہ بہت ہی کم تھا ۔2021میں وسطیٰ ایشیائی ممالک کی جی ڈی پی 347 بلین امریکی ڈالر تھی ۔ جو گزشتہ دو برسوں میں سات گنا بڑھ چکی ہے ۔گزشتہ ایک ماہ میں ان ممالک نے آزاد تجارتی معاہدے شروع کردئیے ہیں جن سے توقع کی جارہی ہے کہ ان کے دوسرے ممالک سے تجارت میں دس سے پندرہ گنا مزید اضافہ ہوگا ۔ وسطیٰ ایشیائی ممالک اپنے ہمسائیوںاور دیگر ممالک سے توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون وتجارت کو بڑھا رہی ہیں ۔ اس کا فائدہ دنیا کو بھی ہوگا اس لیے کہ دنیا اس وقت تجارت کے لیے مخصوص چند ممالک پر انحصار کررہی ہے جس سے مسابقت کی فضا قائم ہی نہیں ہوتی اور یہ ممالک من پسند شرائط پر دنیا کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ۔ اس وقت چین دنیا کو تجارتی میدان میں لیڈ کررہا ہے ۔ جبکہ دیگر ایشیائی ممالک جیسے جنوبی کوریا ، تائیوان ، ہانگ کانگ، ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا،ویت نام وغیرہ جزوی طور پر اس عمل میں شریک ہیں ۔ یورپ سے اقتصادی تجارت کا حجم کم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ یورپ میں مزدوروں کی مہنگی اجرت اور دیگر مہنگے اخراجات ہیں ۔ کپڑے کے مصنوعات کی تجارت میں بنگلہ دیش نے گزشتہ ایک دہائی میں بہت زیادہ ترقی کی ہے ۔وسطیٰ ایشیا کے ممالک ٹیکنالوجی کے منتقلی کی بہت بڑی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگر یہ ممالک اپنے آزاد تجارتی معاہدوں کو جاری رکھتے ہیں اور چین کی طرح ہر شعبہ میں برآمدات شروع کردیتے ہیں تو اس سے ان ممالک کی جی ڈی پی چالیس گنا سے زیادہ بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس خطے کی اقتصادی حالت دنیا کی دیگر خطوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی ۔ وسطی ایشیائی ممالک دنیا کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی تجارت کو فروغ دے رہی ہیں جن سے ان کی باقی دنیا پر درآمدی انحصار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اس لئے وسطی ایشیائی ممالک کا علاقائی تجارتی تعاون کو وسعت دینا اور آزاد، پائیدار ترقی کی یقین دہانی واضح ہے۔وسطی ایشیائی ممالک کی جغرافیائی پوزیشن، جس میں 76 ملین سے زیادہ افراد کی ایک متحرک مارکیٹ ہے اور کوئی سمندری سرحدیں نہیں ہیں، ان کو ایسی اقتصادی پالیسی کی ترقی کی ضرورت تھی جو علاقائی تعاون اور تجارت کو فروغ دے سکے۔وسط ایشیائی ممالک نے گزشتہ دو دہائیوں میں شاندار ترقی کی صلاحیت کے ساتھ نمایاں ترقی کی ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں، خطے کی جی ڈی پی میں حقیقی معنوں میں سالانہ اوسطاً 6.2 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 347 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔2000 کے بعد سے غیر ملکی تجارت میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔2022 میں وسطی ایشیائی ممالک کی غیر ملکی مصنوعات کی تجارت کی مالیت تقریباً 190 بلین ڈالر تھی۔قازقستان وسطی ایشیائی تجارتی چیمپئن ہے، اس خطے کے باہمی تجارت کے کل حجم کا اس کا حصہ 80% ہے ۔2018 اور 2022 کے درمیان علاقائی تجارت میں 73.4 فیصد اضافہ ہوا ($5.8 سے $10 بلین تک)۔ازبکستان وسطی ایشیا میں قازقستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جس کی دو طرفہ تجارت 2025 میں تقریباً 10 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ درمیانی مدت میں ازبکستان کے ساتھ تجارت کو 20 بلین ڈالر تک اور کرغز جمہوریہ کے ساتھ 5بلین ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔قازقستان اس ترقی میں سب سے آگے ہے کیونکہ کاغذ کے بغیر تجارت، تیزی سے تجارتی ترقی کے لیے ایک پل اور بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ایشیاء پیسفک ریجن میں سرحد پار پیپر لیس تجارت کی سہولت فراہم کرنے کے فریم ورک معاہدے کی توثیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔یہ 2021 میں قازقستان، ازبکستان اور کرغیز جمہوریہ کی جانب سے کاغذ کے بغیر سرحد پار تجارت کی تکنیکی اور قانونی موزونیت کے بارے میں کیے گئے مشترکہ معاہدے سے ممکن ہوا ہے، وسطی ایشیائی حکومتوں نے اپریل 2023 میں تجارتی سہولتوں کے لیے قومی کمیٹیوں کے باہمی تعاون کیلئے ایک علاقائی قانونی دستاویز پر بھی دستخط کئے، جرمن ایجنسی فار انٹرنیشنل کوآپریشن کے پروجیکٹ ٹریڈ فیسیلی ٹیشن ان سینٹرل ایشیاء کے تعاون سے ان ممالک نے فائدہ اٹھایا ہے ۔مئی 2023 میں، وسطی ایشیاء گیٹ وے تجارتی معلوماتی پورٹل خطے کے ممالک میں شروع کیا گیا۔ تمام ممالک کے تجارتی سہولت فراہم کرنے والے پورٹلز سے معلومات کو یکجا کرتے ہوئے، تجارتی معلوماتی پورٹل کاروباری اداروں کو سرحد پار تجارتی رسمی کارروائیوں کے بارے میں معلومات تک آسان رسائی فراہم کرتا ہے، خطے کے اندر، خطے سے باہر، اور خطے کے ممالک کی تجارت کے تناظر میں تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس طرح بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ علاقائی تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر نے یہ مہم ریڈی فار ٹریڈ سینٹرل ایشیاء پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر چلائی، جس کی مالی اعانت یورپی یونین نے کی ۔وسطی ایشیائی ممالک علاقائی اور عالمی تجارتی لبرلائزیشن کے نمایاں حامی ہیں۔ تمام ممالک آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کے اندر علاقائی تجارت میں حصہ لیتے ہیں۔ خطے کی دو قومیں، قازقستان اور کرغیز جمہوریہ، یوریشین اکنامک یونین کے رکن ہیں۔ وسطی ایشیاء دنیا کے آخری خطوں میں سے ایک تھا جہاں نصف ممالک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے رکن نہیں تھے۔ حالیہ برسوں میں، صورت حال بدلنا شروع ہوئی ہے خطے کے تین ممالک ڈبلیو ٹی او کے رکن ہیں، اور دو مزید ازبکستان اور ترکمانستان رکنیت کے لیے بات چیت کے عمل میں ہیں۔ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے ساتھ داخلی تجارتی اصلاحات، مارکیٹ تک رسائی میں بہتری، اور تمام رکن ممالک کیلئے وسطی ایشیائی خطے میں رکاوٹیں کم ہوئیں ہیں نتیجتاً ملکوں کی اندرونی تجارت عالمگیر ہو گئی ہے۔جغرافیائی سیاسی تناظر کے پیش نظر، خطہ سرحد پار تعاون کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نقل و حمل کی نئی راہداریوں کی تلاش میں ہے۔وسطی ایشیا میں علاقائی کاری کے عمل کی شدت کے نتیجے میں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کیلئے نقل و حمل اور مواصلاتی نظام کی ترقی کیساتھ ساتھ باہمی ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت بھی بڑھی ہے۔ قازقستان اور ازبکستان کے درمیان سرحد کے ساتھ ساتھ کرغیزـقازق صنعتی، تجارتی، اور لاجسٹکس کمپلیکس اک ٹیلک اور کاراسو چوکیوں کے قریب سینٹرل ایشیاء انٹرنیشنل سینٹر فار کراس بارڈر کوآپریشن کے قیام کا فیصلہ، ایک بہت ہی نمایاں قدم ہے۔ یہ راستہ یہ منصوبے علاقائی تجارتی تعلقات کو بڑھانے کیلئے مشترکہ منصوبوں کے قیام، باہمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور نمائشوں، میلوں اور دیگر تقریبات کی میزبانی کے ذریعے ملکوں کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔ اکتاو اور کوریک کی کیسپین بندرگاہوں کے ذریعے کاکیشین اور یورپی منڈیوں تک رسائی کے ساتھ، قازقستان میں نقل و حمل کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ قازقستان اقتصادی راہداریوں اور نقل و حمل کے مراکز کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو مشرق اور مغرب کو جوڑتے ہیں، اور ملک اکتاؤ کنٹینر ہب بنانے کے ساتھ ساتھ اکتاؤ بندرگاہ اور کریک کی بندرگاہ کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرانزٹ کے طریقہ کار کی ڈیجیٹلائزیشن سے وسطی ایشیائی کاروباروں کو کم وقت اور کم قیمت پر بین الاقوامی تجارت شروع کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔قازقستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان تجارتی روابط کو بہتر بنانے کا ایک نیا منصوبہ مئی 2022 میں وزارت تجارت اور انضمام اور اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے درمیان تعاون کے حصے کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ وسطی ایشیائی نقل و حمل کے رابطے پر پہلے مکمل کیے گئے منصوبے کی منطقی توسیع ہے۔برآمدات کے فروغ کیلئے بنیادی ڈھانچہ تمام وسطی ایشیائی ممالک کیلئے اولین ترجیح ہے۔ خطے کا ہر ملک موجودہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے یا نئے برآمدی امدادی ادارے قائم کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ازبکستان نے 2023 میں وسطی ایشیائی برآمدات کو فروغ دینے والی تنظیموں کی میزبانی کی تاکہ تجربے کے تبادلے اور خطے میں غیر ملکی تجارتی سرگرمیوں کے انعقاد میں مہارت پیدا کی جا سکے۔پاکستان کو چھوڑ کر پوری دنیا تجارتی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوشان ہیں اور پاکستان اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں کر رہا اس کی جگہ یہاں سمگلنگ کوفروغ دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ اور کمال دیکھیں کہ وسطیٰ ایشیائی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھا رہے جس کی وجہ یہاں کے حالات اور قانونی تجارت کی راہ میں حائل ہزاروں مشکلات ہیں ۔اگر حکومت پاکستان بھی دنیا کی دیگر ممالک کی طرح آسان شرائط اور رشوت سے پاک تجارتی اور اقتصادی سہولت کاری شروع کردے تو یہ ممالک پاکستان کے ساتھ بھی تجارتی روابط کا آغاز کرسکتے ہیں ۔ جس سے ہم چین کے مقابلے میں سستے اور پائیدار اشیاکی تجارت کرسکیں گے۔ورنہ دنیا ہم سے بہت آگے نکل جائے گی ۔اور ہمارے کرپٹ حکمران اور ہر سطح پر ان کے سہولت کار یورپ اور امریکہ سدھار جائیں گے ۔اور ہم بھوک اور افلاس سے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

مزید پڑھیں:  آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت