بلاتاخیر اقدامات کی ضرورت

پشاور صدر کے ایک پلازہ میں خوفناک آتشزدگی سے موبائل فون کی200سے زائد دکانیں گودام جل کر تباہ ہو گئے جبکہ ان میں موجود قیمتی سامان راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔ واقعہ میں نقصان کا اندازہ1 ارب روپے سے زائد کا کیا جارہا ہے۔ متاثرہ تاجروں کے مطابق جل جانے والی دکانوں میں موبائل فون اور اس کے سامان کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کی نقد رقم بھی جل گئی۔ عمارت میں لگی آگ پر 16گھنٹے بعد قابو پا لیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ برس بھی مذکورہ پلازہ میں آتشزدگی کا واقعہ ہوا تھا اس کے باوجود پلازہ میں ہنگامی حالات کے مطابق انتظامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا پلازہ کو تکنیکی معائنہ تک سیل کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پشاور کی تاریخ میںآتشزدگی کا یہ دوسرا بڑا و اقعہ ہے اس سے قبل آتشزدگی کا ہولناک واقعہ پیپل منڈی پشاور میںرونما ہوا تھا جس میں بھی کروڑوں روپے کا سامان جل گیا تھا۔خیبر پختونخوا کے مرکزی بڑے شہر میںجہاں کی آبادی میںروز افزوں اضافے کے ساتھ ساتھ کاروباری مراکز بھی گنجان تر ہوتے جارہے ہیں لیکن بد قسمتی سے جدید پشاور کی تعمیراور منصوبہ بندی میں کسی بھی قسم کی شہری و کاروباری آبادی کے لئے منصوبہ بندی اور اس پرعملدرآمد کا فقداں ہے قدیم پشاور میں شہر کی فصیل کے اندرماضی میں جس طرح کی چھوٹی چھوٹی گلیاں بنائی گئی تھیںوہ اس وقت کی ضروریات آمدورفت اور حفاظتی نقطہ نظرسے مناسب تھیں اور آبادی بھی کم تھی لیکن بعدمیں شہر پھیلا ضرور لیکن قدیم طرز کے اقدار کووقت اورحالات کی مناسبت سے تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی یہی وجہ ہے کہ جب بھی خدانخواستہ ہنگامی حالات سے واسطہ پڑتا ہے تو وہی مسائل سامنے آتے ہیں جو برسوں سے چلے آرہے ہیں صدر روڈ کی کشادگی اپنی جگہ لیکن آتشزدگی سے خاکستر ہونے والے پلازے میں ہنگامی راستے اور دروازے ہی کی کمی نہ تھی بلکہ پلازے کے اندر بھی دکانوں کے صحن اتنے تنگ اور تجاوزات سے بھرے تھے کہ ایک دوسرے سے اتصال کے باعث آگ کا تیزی سے پورے پلازے کو لپیٹ میں لینا فطری امرتھا ۔ ہمارے نمائندے کے مطابق صدر کے ٹائم سنٹر میں بھی صرف ایک ہی راستہ تھا جس کے باعث فائر بریگیڈ عملہ کو آگ بجھانے میں شدید مشکلات درپیش آئیں اور 13گھنٹے سے زائد کے وقت میں سب خاکستر ہوگیا۔ خیبر پختونخوا میں عمارتوں کی تعمیر کیلئے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم ہے جو قانون کے مطابق عمارتوں کے نقشوں کی منظوری دیتی ہے تاہم پشاور سمیت صوبہ بھر میں بڑی تعداد میں ایسی عمارتیں اور پلازے تعمیر کئے گئے ہیں جو اس قانون کی پابندی کئے بغیر بنائے گئے ہیںمحولہ پلازہ میں لگی آگ بجھاتے ہوئے سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش تھا کہ راستہ ایک تھا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا جس کی وجہ سے آگ بجھانے میں فائر فائٹرز کو مشکلات آئیں نیز عمارت میں بڑے پیمانے پر موجود بیٹریوں کی موجودگی اور ان کی تعداد کے حوالے سے بھی کوئی ادارہ جانچ نہیں رکھتا جس نے اس عمارت کو مزید خطرات سے دوچار کردیا ۔یہ جہاں سرکاری اداروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان امور کی جانچ پڑتال کرکے نقصان پہنچنے سے قبل ہی اقدامات تجویز کرتے اوراس پرعملدرآمد یقینی بناتے مگراس کی سرے سے زحمت ہی نہیں کی گئی عمارت میں آگ بجھانے والے آلات تو درکنار آگ لگنے پراور خبردارکرنے والا الارم بجنے کا بھی شاید کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی دھویں کی اطلاع دینے والی الارم کا وجود تھا ایسے میں آگ پر قابو پانا ممکن نہ رہا اس کے باوجود کہ پلازہ کو تو بچایا نہ جا سکا مگر متصل عمارتوں تک آگ کے پھیلنے کا تدارک ضرور کیاگیامحدود پیمانے پرلگی آگ کی بروقت اطلاع ملتی تو شاید آتش گیر مواد کی بکثرت موجودگی کے باوجود آگ کو محدود کرنا ممکن ہوتا اور اگر با آسانی رسائی اور متبادل راستے ہوتے تو بھی آگ بجھانے کے عمل میں آسانی ہوتی اس واقعے سے کاروباری طبقے اورمتعلقہ حکام سبھی کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور حفاظتی اقدامات اختیار کرنے میںاب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے شہر کے تمام اہم عمارتوں کا بھی معائنہ کرکے اقدامات تجویز اور ان مجوزہ اقدامات پر مقررہ وقت کے اندر عملدرآمد میں اب مزید تاخیرکی گنجائش نہیں تاکہ آئندہ اس طرح کے کسی ممکنہ حادثے کاتدارک ہو۔

مزید پڑھیں:  یقین نہیں آتا