سیاسی جماعتوں اور عوام سے درخواست

عام انتخابات کا آخری مرحلہ حق رائے دہی کا استعمال پولنگ ڈے ہے آج جمعرات کو ملک بھرمیں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابی اکھاڑے میں موجود سیاسی جماعتوں بعض مذہبی تنظیموں اور آزاد امیدواروں کے حق میں ان کے کارکنان اور ہم خیال رائے دہندگان اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی انتخابات کے عدم انعقاد کے حوالے سے افواہوں اور دعوئوں کا جو کاروبار شروع ہوا تھا وہ چل نہیں پایا۔ یہ درست ہے کہ اس بار کی انتخابی مہم کچھ نہیں بلکہ زیادہ تر پھیکی اور مایوس کن ہی رہی۔ ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان اوران کے متعدد ساتھی جیلوں میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے درجنوں مرکزی رہنما اور فعال کارکن یا تو منظر سے غائب ہیں یا پھر مختلف مقدمات کی بدولت جیلوں میں بند ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں پر پارٹی نشان بلا منسوخ کردیا جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ رکھنے والے امیدواران ملک بھر میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات لڑرہے ہیں۔ پارٹی نشان نہ ہونے اور آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی وجہ سے تحریک انصاف بہرحال خسارے میں رہے گی البتہ یہ دعوے غلط ہیں کہ انتخابی عمل اسے حرف غلط کی طرح مٹادے گا۔ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے انتخابی منشور رائے دہندگان کے سامنے رکھے۔ پی ٹی آئی بطور جماعت انتخابی مہم نہیں چلاپائی۔ اس کے امیدواروں نے انفرادری طور پر اپنی انتخابی مہم ضرور چلائی۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے البتہ جارحانہ انتخابی مہم کے ذریعے اپنے ناراض کارکنوں اور ووٹروں کو متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش میں وہ کس حد تک کامیاب رہے اس کا اندازہ انتخابی نتائج سے ہی ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف پارٹی صدر شہباز شریف نے بھی متعدد کامیاب جلسے کئے البتہ ان کی انتخابی مہم پنجاب اور خیبر پختونخوا تک محدود رہی ہے۔ حالیہ انتخابی مہم میں سب سے جاندار انتخابی مہم جماعت اسلامی کی رہی۔ جماعت کے امیر سراج الحق نے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو نہ صرف اپنا حریف قرار دے دیا بلکہ انہیں ملک کے تمام مسائل کا ذمہ دار اور امریکی لے پالک ٹھہراتے ہوئے جماعت اسلامی کو متبادل قیادت کے طور پر بھی پیش کیا۔ مندرجہ بالا چار جماعتوں کے علاوہ بھی سیاسی عمل میں شریک چھوٹی سیاسی جماعتوں علاقائی (قوم پرست) جماعتوں اور مذہبی تنظیموں نے بھی بساط مطابق انتخابی مہم میں رائے دہندگان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ فیصلہ اب رائے دہندگان جمعرات کو ووٹ دیتے وقت ہی صادر کریں گے کہ وہ ملک میں کس قسم کی قیادت چاہتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اقتدار کا تاج کس جماعت کے سر پر رکھنا ہے۔ یہ ا مر بجا طور پر درست ہے کہ ماضی کے انتخابات کی طرح موجودہ انتخابات کے حوالے سے عوام کاملا آگاہ ہیں کہ پاکستان میں فیصلہ سازی پر قدرت رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کا موڈ کیاہے اور اس کی ترجیحات کیا ، سیاسی جماعتوں میں سے جو اسٹیبلشمنٹ کی محبت میں گرفتار ہیں وہ پولنگ ڈے سے قبل ہی پھولے نہیں سمارہیں۔ یہ صورتحال پاکستان میں پہلی بار دیکھنے میں نہیں آرہی ماضی کے انتخابات اور بالخصوص 2013 اور 2018 کے انتخابات کے نتائج سے بھی رائے دہندگان پیشگی آگاہ تھے اس وقت بھی ہر خاص و عام اس امر سے بخوبی آگاہ تھاکہ راج محل میں مسند نشینی کا حق دار کسے بنایا جارہا ہے۔ پاکستان ایسے ملک میں جہاں عوامی جمہوریت اسٹیبلشمنٹ کو وارے نہیں کھاتی روز اول سے ہی عوام کے حق حکمرانی پر اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کو تقدم حاصل ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ شب ختم ہونے والی انتخابی مہم کے بعد اب صرف پولنگ کا مرحلہ باقی ہے جمعرات کی شام کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نتائج آنا شروع ہوجائیں گے۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے بعض رہنما قومی اسمبلی کی 100 نشستوں پر اپنے ہم خیال امیدواروں کی کامیابی کے لئے پرامید ہیں۔ مسلم لیگ (ن) دو تہائی اکثریت کے حصول کی دعویدار ہے اور پپلزپارٹی بھی اس امر کے لئے پر امیدہیں کہ اس کے بغیر آنے والے دنوں میں حکومت سازی مشکل ہوگی۔ انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریرکی تلخی اور بعض واقعات سے پیدا ہوئے مسائل ہر دو کا خاتمہ اب ضروری ہے۔ یہاں ہم رائے دہندگان کو بھی اس امر کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے ذات پات، برادری ازم اور فرقہ پرستی کی سطح سے بلند ہوکر جمہوریت اور دستور کی بالادستی کے لئے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو درپیش مسائل سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ سیاسی و معاشی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ ہر رائے دہندہ کا یہ بنیادی سیاسی و جمہوری اور قانونی حق ہے کہ وہ جس جماعت یا امیدوار کو چاہے ووٹ دے، رائے دہندگان کے حق رائے دہی کا احترام بھی ان تمام محکموں اور اداروں پر واجب ہے جو انتخابی عمل مکمل کرانے کے قانونی طورپر ذمہ دار ہیں یا پھر نظام حکومت چلانے میں حکومت سے تعاون کے دستوری طورپر پابند۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی مودبانہ درخواست ہے کہ وہ رائے دہندگان کے فیصلے کو نہ صرف کھلے دل سے تسلیم کریں بلکہ پولنگ والے دن ملک بھر میں امن و امان کو برقرار رکھنے اور پرامن انداز میں رائے دہی کا عمل مکمل ہونے کے لئے ا پنے کارکنوں حامیوں اور امیدواروں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں۔ انتخابی عمل کے آغاز سے انتخابی مہم کے خاتمے کے دوران جو ہوا سو ہوا خوش آئند امر یہ ہے کہ سازشی عناصراپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہونے پائے اور انتخابی مہم کے دوران چند افسوسناک واقعات کے علاوہ کوئی بڑا سانحہ رونما نہیں ہوا ، اس امر پر دو آرا نہیں کہ چند ایک علاقوں میں جذباتی کارکنوں اور امیدواروں کی وجہ سے ناخوشگوار واقعات ضرور ہوئے لیکن سیاسی قائدین نے اس کی حوصلہ ا فزائی نہیں کی البتہ یہ امر باعث تشویش ہے کہ صوبہ پنجاب میں سرکاری مشینری غیرجانبدار نہیں رہ پائی اس کے جانبدارانہ طرزعمل سے منفی تاثر ابھرا کہ پنجاب کی انتظامی مشینری اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ایک خاص جماعت کے حق میں وسائل اور اختیارات کا استعمال کررہی ہے۔ بہرطور ہم امید کرتے ہیں کہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں اور مرکز کی نگران حکومتیں پولنگ والے دن انتہائی غیرجانبداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کریں گی تاکہ کوئی انہونی یا ناخوشگوار واقعہ نہ ہونے پائے۔ رائے دہندگان، امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان اس وقت سنگین مسائل سے دوچار ہے بالخصوص عوام کے کمزور طبقات کے لئے مہنگائی اور دوسرے مسائل کی بدولت زندگی بوجھ بن گئی ہے۔ عوام پرامید ہیں کہ انتخابی نتائج جس بھی جماعت کو مستقبل کے لئے اقتدار سازی کا حق دیتے ہیں وہ سب سے پہلے غربت و بیروزگاری، بدامنی اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے موثر حکمت عملی وضع کرکے اس پر عمل پیرا ہوگی۔ ثانیا انتخابی نتائج کو تمام سیاسی جماعتیں کھلے دل سے تسلیم کریں گی۔ بالفرض پولنگ اور نتائج کے حوالے سے کسی جماعت یا امیدوار کو کوئی شکایت پیدا بھی ہو تو مسئلہ کے حل کے لئے متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جائے یہ امر واضح ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت اور نظام حکومت کے حوالے سے ماضی کچھ زیادہ تابناک نہیں رہا۔ بہرطور اس کی تمام تر ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کی بجائے اس امر پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ مختلف ادوارمیں سیاسی جماعتوں نے رائے دہندگان پر اعتماد کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا کیوں لیا۔ ہمارے لئے اس رائے کو یکسر نظرانداز کرنا ممکن نہیں کہ اگر سیاسی جماعتیں واقعتا ملک میں عوامی جمہوریت چاہتی ہیں تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ کے حصول کی خواہش سے نجات حاصل کریں۔ عوام اور جمہوری عمل پر اعتماد کریں۔ حرف آخر یہ ہے کہ انتخابی نتائج جس بھی جماعت کو حکومت سازی کاحق دیں وہ جماعت انتقام کی سیاست کی بجائے عوام کی خدمت کو اپنا فرض سمجھے اور پاکستان کو داخلی و خارجی مسائل سے نجات دلانے کے لئے کوئی کسر نہ اٹھارکھے۔

مزید پڑھیں:  9مئی سے 9مئی تک