گندم از گندم جواز جو

تمام تر تحفظات اور شکوک شبہات کے باوجود عام انتخابات کا انعقاد ہونے سے ان تمام افواہوں کا خاتمہ ہی نہیں ہوا بلکہ ایک خاص تناظر میں انتخابات کے التواء کاجو منظر نامہ تراشا جارہا تھا وہ بھی درست ثابت نہ ہوا ،اس کے بعد بھی خدشات کے ازالے کی پوری صورت نظر نہیں آتی، اب اگلے مرحلے میں انتخابی نتائج کو متنازعہ بنانے اور ان کو قبول نہ کرنے کا خدشہ ہے ،بہرحال ممکن ہے یہ خدشہ درست ثابت ہو یا غلط ملک میں انتخابات کا انعقاد اطمینان کا باعث امر ہے، خدشات کا اظہار مختلف عناصر کی طرف سے ہو تا رہا، امر واقع یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں اور خیبرپختونخوا کی ایک مذہبی جماعت کی قیادت کی پوری کوشش تھی کہ انتخابات کا انعقاد آٹھ فروری کو نہ ہو سکے، اس کے پس پردہ وجوہات کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتاالبتہ انتخابی نتائج آجائیں تو کسی حد تک واضح ہو گا کہ اس مطالبے کے پس پردہ کیاعنصر کا رفرما تھا؟ ۔خیبر پختونخوا میں پولنگ کے دن بھی کچھ واقعات کی دم تحریر اطلاع ہے تاہم کوئی بڑاناخوشگوار واقعہ ابھی تک پیش نہیں آیا،پہلے تین گھنٹوں میں صوبائی دارالحکومت پشاور میں انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آئی اور پولنگ بھی تاخیر سے شروع ہوئی بہرحال یہ بالکل ابتدائی صورتحال تھی، عموماً بعد میں لوگ ووٹ ڈالنے نکلے گو کہ مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال زیادہ پر خطر نہیں رہی لیکن بلوچستان میں صورتحال ضرور پرخطر رہی جہاں انتخابات سے ایک روز قبل دو دھماکوں میں کم سے کم 30 افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد زخمی ہوگئے ۔2024ء کے انتخابات کئی لحاظ سے منفرد ہیں اولاً یہ طویل ترین نگران حکومت کے بعد ہوئے اصولی طورپر ان انتخابات کا انعقاد نومبر 2023ء کو ہونا تھا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات چودہ مئی کو کرانے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے حکم کو بھی پس پشت ڈالا گیا۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف سے وابستگی کے باوجود بڑے پیمانے پر امیدوار مختلف نشانات لے کر بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑنے پر قانونی طور پر مجبور کئے گئے ،علاوہ ازیں بھی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں نے انتخاب لڑا ،خواتین امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے بھی جنرل نشستوں پرانتخاب لڑا، ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہی اس وقت جیل میں نہیں بلکہ امیدواروں کی کافی تعدادنے بھی جیل سے الیکشن لڑایا یا گھر روپوشی کے عالم میں انتخاب لڑا۔اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کوئی انتخابی امیدوار جیل سے الیکشن لڑ رہا ہو۔ اس سے پہلے مولانا کوثر نیازی، چوہدری ظہور الہٰی، جاوید ہاشمی، مولانا اعظم طارق سمیت کئی اہم رہنماء جیل سے انتخابات لڑ اور جیت چکے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دو چار نہیں بلکہ درجنوں رہنماء اس وقت جیل میں بند ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انتخابات میںحصہ لیا، حسب سابق اس بار بھی موبائل سروس کو معطل رکھا گیا جس کی وجہ دہشت گردی کے خدشات ہیں،عام انتخابات کے موقع پر اس طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے، اس مرتبہ بھی طرح طرح کے تحفظات اور خدشات کا اظہار انتخابی نتائج آنے سے قبل ہی شروع ہوگیا ہے جس سے اس امر کا خدشہ ہے کہ انتخابی نتائج ممکنہ طور پر متنازعہ ہوں گے البتہ خوش آئند امر یہ ہے کہ اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء نے کہا ہے کہ الیکشن کے بعد دھرنا دینے یا پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ الیکشن کے بعد ہم پارلیمان میں بیٹھیں گے۔ان سطور کی اشاعت تک عام انتخابات کے نتائج آنے کے سلسلے میں تیزی آئی ہو گی اور بڑی حد تک سیاسی منظر نامہ بھی واضح ہوا ہوگاکہ ملک میں سادہ اکثریت سے کسی جماعت کی حکومت بننے جارہی ہے یا پھرمخلوط حکومت ہو گی، لگتا یہی ہے کہ سادہ اکثریت کے باوجود بھی جیتنے والی جماعت کی سعی ہو گی کہ وہ دوسری جماعتوں کوبھی حصہ دار بنانے کی سعی کرے تاکہ مرکز میں مضبوط حکومت بن سکے اور اس کے اثرات صوبوں پر پڑیں۔عوام نے کس قسم کے امیدواروںکاچنائو کرنا ہے وہ وقت اب ختم ہوگیااب جوبھی صورتحال سامنے آئے وہ عوام کا فیصلہ ہو گا اورعوامی فیصلے کے مطابق جس جماعت یامخلوط حکومت بنے گی اس کی وہ واحد ذمہ دار نہیں ہوگی بلکہ عوام اس میں برابر کے شریک ہوں گے، ان نمائندوں کو عوام ہی نے منتخب کیا ہو گا عوام نے اگر اچھے، ایمانداری اور دیانتداری کو مد نظررکھ کر ووٹ دیا اور تعصبات و جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر اہل امیدواروں کاانتخاب کیا ہو گا توان کو حکومت میںبھی ان کے فیصلے کی جھلک نظر آئے گی اور خدانخواستہ اس سے احتراز کیا ہو گا تو بھی اب ان کو اپنے نمائندوں کو آئندہ انتخابات تک بھگتنا ہو گا جوبھی فیصلہ عوام کا تھااب اس کا نتیجہ سامنے ہے اورحتمی طور پرآناباقی ہے گندم از گندم جواز جو۔

مزید پڑھیں:  آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت