ملک چھوڑنے کا رجحان

ہنرمندوں اور تعلیم یافتہ طبقے کا کسی دوسرے ملک کی طرف رجوع اور وہاں بسنے کا رجحان کسی بھیملک ریاست کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے دیکھا جائے تو ہمارے نوجوانوں کی کثیر تعداد بیرون ملک نکلنے کا قصد کئے بیٹھی ہے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی نظریں ہمیشہ بلیو کالر ورکرز کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر پر جمی رہتی ہیں ۔بیرون ملک جانے کی تگ ودو کے پیچھے محرک قوت، بلاشبہ، بہتر معاش اور آمدنی کے مواقع کا حصول ہے۔ جب کہ تعلیم یافتہ طبقہ بیرون ملک جانے کا فیصلہ بنیادی طور پر ذاتی حالات کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے بیرون ملک ملازمت کو ایک پرکشش موقع بنا دیا ہے۔ مزید برآں، غیر معمولی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران نے شہریوں کو معاشی عدم تحفظ کی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔قدرتی طور پر، اگر کسی فرد کا کوئی عزیز بیرون ملک ملازمت کرکے نسبتاً بہتر زندگی گزار رہا ہے، توان کی بھی ایسا کرنے کی خواہش تیز ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ترسیلات زر کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ برین ڈرین کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کوشش کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ترسیلات زر ملک کے اندر پائیدار ترقی میں معاون ثابت ہوں۔ ترسیلات زر کی دولت کو موثر طریقے سے استعمال کرنے سے، پاکستان اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے اور اپنے شہریوں کے لیے ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ہنرمندوں کے باہر جانے اور ترسیلات زر کی اقتصادی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے، پاکستان خوشحالی کی طرف ایک راستہ طے کر سکتا ہے ۔
منظم گداگری
گداگری اب باعث مجبوری اختیار نہیں کی جاتی بلکہ اسے پیشہ بنا دیاگیا ہے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ان دنوں پیشہ ور گداگروں کی بھرمار ہے پیشہ ور گداگروں کے خواتین گروہ کے ساتھ چوری اور ڈکیتی کے لئے تیار مردوں کاگروہ بھی آس پاس ہی کہیں ہوتا ہے جو خواتین کی کال ملنے پر واردات کرنے پہنچ جاتے ہیں جس کے باعث گھروں میں بیٹھی خواتین اوربچے بھی محفوظ نہیں خاص طور پر جب مرد کام پر چلے جاتے ہیں اس وقت ٹولیوں کی صورت میں ان عناصر کے باعث ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے ۔جو دروازہ اس وقت تک بجاتی ہیں جب تک ان کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت نہ کیا جائے ۔ صرف یہی نہیں بی آر ٹی سٹیشنز کی بیرونی راہداریوں میںبھی جگہ جگہ بھیک مانگنے والوں کی بھرمار نظر آتی ہے جن کے باعث آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہونا فطری امر ہے ۔ انسداد گداگری پرتوجہ اب سرکاری اداروں کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں لیکن کم از کم ایسے پیشہ ور گروہوں کے خلاف ہی کارروائی کی جائے جو واضح طور پر چوری چکاری اور ڈکیتی تک کے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ان عناصر کی شناخت کوئی مسئلہ نہیںبلکہ یہ ایک مخصوص طرز کے غیرمقامی لوگ ہوتے ہیں جن کی شناخت با آسانی ہوسکتی ہے کم از کم ان ٹولیوں کی صورت میں پھرنے والے گداگروں کوہرتھانے کی حدود سے متعلقہ پولیس نکالنے کے احکامات دے کر اس پر عملدرآمد کروایا جائے تو بھی شہری بڑی حد تک سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ان عناصر کے خلاف حکومتی اداروں کو متحرک کئے بغیر مقاصد کا حصول ممکن نہیں ان عناصرکی موجودگی سے مختلف معاشرتی برائیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اوراس کے معاشرے پربرے ا ثرات مرتب ہوتے ہیں ان عناصرکی دیکھا دیکھی گداگری کی طرف دوسروں کا بھی متوجہ ہونا بعید نہیں ان عناصر کو مزید ڈھیل نہیں ملنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  9مئی سے 9مئی تک