منقسم مینڈیٹ اور حکومت سازی

پاکستان کی تاریخ میں انتخابات کے نتائج کے بعد اس وقت جس قسم کی منتشر اور منقسم مینڈیٹ کی صورتحال سامنے آئی ہے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا اور اب اسی کے طفیل حکومت سازی پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ حکومت کون بنائے گا، نظر بہ ظاہر تو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کی تعداد زیادہ ضرور ہے تاہم سادہ اکثریت سے محرومی کی وجہ سے اور آئین کے مطابق ان پر کسی جماعت کی ”چھاپ” نہ ہونے کی وجہ سے تحریک کے رہنماؤں کے دعوؤں کے باوجود انہیں حکومت سازی کی دعوت کیسے مل سکتی ہے اس پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں جبکہ ”حقیقی آزاد” ارکان کے حوالے سے لیگ(ن) کے دعوؤں کی روشنی میں تحریک انصاف سے وابستہ (مبینہ) ارکان کی تعداد اتنی نہیں جتنے کا وہ دعویٰ کر رہی ہے، ایسی صورت میں (بظاہر) کسی جماعت سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے ان آزاد ارکان کو کیسے حکومت سازی کی دعوت دی جا سکتی ہے، ایسی صورت میں جماعتوں کی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو لیگ(ن) کے ارکان کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے، تاہم پیپلز پارٹی کے ارا کین کی تعداد بھی قابل ذکر ضرور ہے، ایسی صورت میں تحریک انصاف کے رہنماء حکومت سازی کے جو دعوے کر رہے ہیں ان کی آئینی اور قانونی حیثیت کا تعین کیسا کیا جائے گا، کیا آئینی تقاضوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک ”غیر جماعتی آزاد گروپ” کو آئین سازی کی دعوت دی جا سکتی ہے، یہ قانونی موشگافی کیسے حل کی جائے گی، اس پر آئینی اور قانونی ماہرین ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں ،تاہم اس ضمن میں حکومت سازی کے حوالے سے دو آراء اور بھی ہیں یعنی ایک طرف لیگ(ن)کے قائد میاں نواز شریف کا یہ فارمولا کہ سب مل کر ایک قومی حکومت بنا کر ملک کو حالیہ معاشی بحران سے باہر نکالیں اور دوسرا پیپلز پارٹی کا اتحادی حکومت بنانے کے حوالے سے دیا گیا روڈ میپ، اس ضمن میں دونوں جماعتوں نے آزاد ارکان سے رابطوں کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے اپنے آزاد ارکان کو اپنے ساتھ منسلک رکھنے کے حوالے سے اپنے رابطے شروع کر دئیے ہیں، اسی طرح لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کے درمیان ابتدائی ملاقاتوں میں اپنے اپنے وزیراعظم لانے پر گفت و شنید کی وجہ سے بھی اختلافات سامنے آ چکے ہیں، پیپلز پارٹی اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر دیکھنا چاہتی ہے جبکہ لیگ(ن)میاں نواز شریف کو چوتھی مرتبہ ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے، اس صورتحال پر پیپلز پارٹی کا فارمولا یہ ہے کہ میاں صاحب سینئر اور سیزنڈ سیاستدان ہونے کے ناطے صدارت قبول کر لیں جبکہ انتخابات سے پہلے ایسی خبریں بھی گردش میں رہی ہیں کہ لیگ(ن) آصف علی زرداری کو صدارت کا منصب پیش کرنے کے حوالے سے سوچ رہی ہے، تاہم اب جبکہ انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے اور ایک منقسم مینڈیٹ سامنے ا چکا ہے حکومت سازی کا عمل پیچیدگی اختیار کرتا جا رہا ہے اور انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد تین دن کے اندر اندر آزاد ارکان کو اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے کس جماعت کے اندر جانا ہے، اس ضمن میں گزشتہ روز ایک دو جماعتوں کے نام بھی سامنے آئے تھے مگر حتمی فیصلے کے اوپر پہنچنا ایک دقت طلب مسئلہ ہے کیونکہ آئینی ،قانونی اور اصولی طور پر آزاد ارکان کے کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد ان کی آزادانہ حیثیت ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد وہ محولہ ضم شدہ جماعت کی پالیسیوں کے مطابق سیاسی کردار ادا کرنے کے پابند ہوں گے، بہرحال یہ ایک انتہائی پیچیدہ سیاسی عمل ہے اور اس حوالے سے صرف زبانی کلامی دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ آئین کے تحت ہی سارا عمل تکمیل کے مراحل طے کر سکتا ہے، ان تمام تر مسائل کے باوجود ہم سیاسی قائدین سے یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ وہ اس موقع پر ذاتی اور جماعتی مفادات سے قطع نظر کرتے ہوئے ملکی اور قومی مفاد میں ایسے فیصلے کریں کہ پاکستان کو درپیش مسائل پر قابو پایا جا سکے اور ملک کی اقتصادی اور معاشی مسائل کے حل کی صورت نکل آئے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

مزید پڑھیں:  حساب کتاب