قوم پرستوں کو شکست کیوں ہورہی ہے

پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے بھی ہندوستان میں سیاست کا وجود تھا ۔ تب بھی چار دھڑے تھے ۔ قوم پرست، مذہبی ،لبرل اور کمیونسٹ ۔کمیونسٹ ہندوستانی مزاج کے نہیں تھے اس لیے گنے چنے لوگ ہی ان کی طرز سیاست میں فٹ بیٹھتے تھے ۔قوم پرست اور مذہبی سیاست ہندوستانی مزاج کے عین مطابق تھے ۔ جبکہ وہ طبقہ جو سرسید سکول اف تھاٹ کا پروردہ تھا وہ لبرل سیاست کا حامی تھا ۔ قوم پرست اور مذہبی سیاست سے وابستہ لوگ ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے ۔جبکہ لبرل مسلمان اپنے لیے ایک الگ ملک چاہتے تھے ۔ پاکستان بن گیااور وہ سیاسی دھڑے جو ہندوستان کی سیاست کرتے تھے وہ اب پاکستان کی سطح کی سیاست کرنے لگے ۔ پاکستان میں چونکہ مختلف نسلوں کے لوگ آباد ہیں جو اپنی اپنی الگ زبان بولتے ہیں اور خود کو دوسرے نسلوں سے الگ سمجھتے ہیں اس لیے یہا ں پر قوم پرستی کا رجحان زیادہ تھا ۔ سندھی ، بلوچی ، پشتون ، پنجابی اور بنگالی اپنی اپنی سیاسست کرتے رہے جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ اس سے وفاق کمزور ہوتا چلا گیا جس کا فائدہ دیگر قوتوں نے اٹھایا اور پاکستان میں عدم استحکام ہی رہا اور حکومتوں اور قوم پرستوں میں ہمیشہ اختلاف ہی رہا ۔ اس اختلاف کا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا ۔ آج جو پاکستان کی زبوں حالی ہے اس کے پیچھے دیگر چند محرکات کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا محرک یہ بھی ہے ۔ مذہبی جماعتیں اور قوم پرست ایک دوسرے کے مقابل ہی رہے جس سے لبرل جماعتوں نے فائدہ اٹھایا اور وہ زیادہ عرصہ حکومت میں رہے ۔ دس برس پہلے تک قوم پرست لوگوں میں مقبول تھے وہ قومی سیاسی دھارے میں بھی نظر آتے تھے لیکن گزشتہ دس برسوں میں قوم پرست سیاست کرنے والے قومی سیاسی دھارے سے دور ہوتے چلے گئے ۔اس کے کئی ایک وجوہات ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ موروثی سیاست ہے ۔ پاکستان بھر میں قوم پرستی کو بنیاد بناکر سیاست کرنے والی جماعتیں اب صرف کسی ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہیں ۔ اب قوم پرستی کی جگہ ان پارٹیوں میں خاندانی اثر روسوخ اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ جماعتیں عوامی حمایت کھو چکی ہیں ۔دوسری بڑی وجہ ان جماعتوں میں غیر جمہوری روئیے ہیں ،چونکہ ان جماعتوں میں لیڈرشپ کا معیار قابلیت کی جگہ موروثی گدی نشینی ہے اس لیے ان پارٹیوں میں جمہوری روئیے پروان نہیں چڑھتے ، کم عمر پارٹی سربراہ اپنی مرضی کے لوگوںکو اہمیت دیتے ہیں اور پارٹی کے مخلص اور حقیقی لوگوں کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مشورہ کیا جائے اور ان کو بھی فیصلہ سازی میں ساتھ رکھا جائے ۔جس کی وجہ سے ایک ایسا گروپ پارٹی میں وجود پاتا ہے جو حقیقی قوم پرستوں کو سائیڈ لائن کردیتا ہے ۔ پارٹی کی صرف مرکزی لیڈرشپ ہی نہیں بلکہ ہر تحصیل کی سطح پر یہ قوم پرست جماعتیں صرف ایک ہی خاندان تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ قوم پرستوں کی دو اقسام ہیں ایک وہ قوم پرست ہیں جو حقیقی معنوں میں اپنے قوموں کی نمائندگی کے لیے وجود میں آئے اور دوسرے قوم پرست وہ ہیں جن کو مقتدر حلقوں نے بنایا ۔ مقتدر حلقوں کی بنائی ہوئی جماعتیں جب ان کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مدد اور حمایت مل جاتی ہے اس لیے وہ پاکستان کی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں جبکہ وہ حقیقی قوم پرست جو اپنے قوم کے مفاد کے لیے سیاست میں آئے تھے اب اپنی اہمیت کھو چکے ہیں ۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں اب قوم پرست انتخابی سیاست میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں ۔ پنجاب میں قوم پرست سیاست نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے ۔ بلوچستان اور کراچی میں مقتدر حلقوں کی بنائے ہوئے قوم پرست سیاست میں موجود ہیں اور حالیہ انتخابات میں کافی تعداد میں اسمبلیوںمیں بھی پہنچے ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی قیام پاکستان سے پہلے کی قوم پرست جماعت ہے ۔ اس جماعت کو قیام پاکستان سے پہلے اور فوراً بعد حکومت میں آنے کا موقع بھی ملا ۔ اس جماعت نے باچا خان جیسے عظیم شخصیت کے ہاتھوں میں پرورش پائی ۔اصولی سیاست کو اپنا مقصد و محور بنایا ۔ باچا خا ن کے بعد ولی خان جیسے اصول پسند سیاست دان نے اس کو پشتون اقوام میں مقبول رکھا ۔ ولی خان کے بعد باچا خان فیملی وہ معیار برقرار نہ رکھ سکی اور یہ قوم پرست جماعت اپنے حقیقی سیاست سے دور ہوتی چلی گئی ۔ باچا خان جو عدم تشدد کے علمبردار تھے اور پشتونوں کی مفادات کی سیاست کرتے تھے اپنے کردار اور اصول پسندی کی وجہ سے مشہور تھے ۔ اس لیے لوگ ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ اصولوں پر سودا بازی نہ کرنے کی پاداش میں وہ اکثر سلاخوں کے پیچھے ہی رہے ۔ مگر ان کی جماعت کے موجودہ سرکردہ لوگ ان کے اس معیار کو برقرار نہ رکھ سکے ۔ یہ جماعت بلوچستان کے پشتونوں کی نمائندگی سے محروم ہوگئی ۔ پشتونوں کی سب سے زیادہ آبادی کراچی میں ہے جہاں اس جماعت نے اصول پسند لوگوں کی جگہ مفاد پرستوں کی پشت پناہی کی ۔ اس جماعت کو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کرنے کا ایک موقع بھی ہاتھ آیا تھا ۔جس کو استعمال کرکے یہ جماعت صوبہ میں اپنی مستقل حیثیت کو مضبوط کرسکتی تھی ۔ مگر حکومت میں اکر یہ جماعت چند ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے اس پارٹی کے اسی برس کی سیاست کی جگہ مفاد کی سیاست کو رواج دیا ۔ چند اشخاص نے اس پارٹی کی وہ حیثیت ہی بدل دی جو باچا خان اور ولی خان نے دہائیوں میں بنائی تھی ۔ شخصیات کے نام سے پارٹیاں زیادہ دیر نہیں چل پاتیں اس لیے کہ دو نسلوں کے بعد لوگ شخصیت کو بھول جاتے ہیں ۔ حالیہ انتخابات میں اس جماعت کا بری طرح شکست کھا جانا ان غلطیوں کا تسلسل ہے جو یہ جماعت گزشتہ دس برسوں سے مسلسل کررہی ہے ۔ عوامی حمایت کے بجائے شخصی حمایت کے لیے کوشان اس پارٹی کے لیڈر یہ حقیقت فراموش کربیٹھے کہ ووٹ عوام نے دینا ہے ۔ یہ جماعت اپنے بردباری ، تحمل ، خوش اخلاقی اور شائستہ گفتگو کے لیے مشہور تھی ۔اس کے لیڈر جب بات کرتے تھے تو ان کی ایک ایک بات کو لوگ حوالے کے طور پر یاد رکھتے تھے ۔ اس پارٹی میں پارٹی سربراہ کے علاوہ بہت ہی معتبر اور فکری پختگی رکھنے والے لوگ موجود تھے اور ان کی بات کو سنا جاتا تھا ۔ پارٹی کے فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے ۔ اور کوئی بھی فیصلہ پارٹی کے مینوفسٹو کے خلاف نہیں کیا جاتا تھا ۔ اس کے لیڈرعوام میں رہتے تھے اس لیے مقبول تھے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس وقت پارٹی میں ایسے لوگوں کی کمی ہوگی ۔ اس پارٹی میں دلیل اور سیاسی دوراندیشی کے ساتھ بولنے والے اب بھی موجود ہیں لیکن ان کو سائیڈ لائن کردیا گیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عوامی سطح پر یہ جماعت وہ مقبولیت کھو بیٹھی ہے جس کی بنیاد پر اس کے نمائندے فیصلہ ساز اسمبلیوں میں پہنچتے تھے ۔ یہ آخر ی الیکشن تھا جس میں کچھ لوگ تھے جن کو یاد تھا کہ باچا خان کون تھا اور اس کے افکار کیا تھے ۔ اگلے الیکشن میں شاید دو فیصد لوگ بھی ایسے نہیں ہوں گے جو قوم پرست سیاسی نعرے پر ووٹ دینے نکلیں ۔ ان انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ عوام سے جو پارٹی دور رہے گی ۔ ان کے مسائل پر بات نہیں کرے گی ۔ان کی نمائندگی کی جگہ صرف شخصی مفاد اور ذاتی تشہیر پر توجہ دے گی وہ عوامی حمایت سے محروم ہوجائے گی ۔ نوجوان نسل کے مسائل وہ نہیں ہیں جو آج سے بیس برس پہلے تھے ۔ اگر قوم پرستوں نے سیاست میں رہنا ہے تو انہیں اپنا حقیقی بیانیہ پھر سے بنانا ہوگا اور ان لوگوں کو سامنا لانا ہوگا جو حقیقی نمائندگی کرسکیں ۔ پشتونوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں مگر ا ن کی کوئی حقیقی نمائندہ جماعت اس وقت موجود نہیں ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی جو کسی زمانے میں پشتونوں کی نمائندگی کرتی تھی اب وہ صلاحیت کھو بیٹھی ہے ۔اس پارٹی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کرنے والے لوگ جنہوں نے اپنی جوانیاں باچا خان کے فلسفہ کو پھیلانے میں لگا دئیے وہ جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو وہ کسی کو یاد نہیں آتے اور پارٹی ٹکٹ کسی ایسے بندے کو مل جاتا ہے جس کی سیاسی موجودگی سے علاقے کے لوگ بے خبر ہوتے ہیں ۔ ہم جب یونیورسٹی میں طالب علم تھے تو یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ لیڈر ہوتے تھے جن کو سب سید عالم بابا کے نام سے جانتے تھے جو چلتے پھرتے باچا خانی فلسفے کے مکمل نمائندہ تھے ۔ تعلیم مکمل کرکے وہ گزشتہ پچیس برس سے مردان میں قوم پرست سیاست کررہے ہیں اور زندگی میں وہ صرف یہی کام کرتے ہیں ۔انہیں مردان کا بچہ بچہ بابا کے نام سے جانتا ہے ۔ مگر ان کو کبھی ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ اگر ان کو ٹکٹ ملتا تو ان سے الیکشن کون جیت سکتا تھا ۔ یہ ایک مثال ہے اس طرح کی مثالیں ہر صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقے میں آپ کو ملیں گی ۔ قوم پرست سیاسی میدان میں شکست کھا رہے ہیں ۔ اور ان کے مقابلے میں لبرل عوام میں مقبول ہورہے ہیں ۔اس لیے قوم پرست جماعتوں کے وہ لوگ جن کو نظر انداز کیا جارہا ہے وہ دوسری سیاسی پارٹیوں میں جارہے ہیں ۔ اس الیکشن میں درجنوں ایسے امیدوار تھے جو دہائیوں سے قوم پرست تھے مگر انہوں نے الیکشن دوسری جماعتوں کی طرف سے لڑا ہے ۔سیاست میں جو ہار جاتے ہیں وہ مرجاتے ہیں ۔ سیاست میں زندہ رہنے کے لیے اسمبلی میں ہونا ضروری ہے ۔اور اسمبلی میں پہنچنے کا جو راستہ ہے وہ قوم پرست جماعتیں کھو چکی ہیں۔

مزید پڑھیں:  حساب کتاب