پنجاب میں پہلی خاتون وزیر اعلیٰ

مُلک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون صوبائی وزیر اعلیٰ کے طور پر پنجاب میں اپنا عہدہ سنبھال چکی ہیں ۔ اس سے قبل ایک خاتون مُلک کی وزیر اعظم بھی رہ چکی ہیں ۔ان دونوں خواتین کا سیاسی سفر ایک دوسرے سے مختلف ہے مگر دونوں ایک سیاسی رہنما اور مُلک کے وزیر اعظم کی بیٹیاں و سیاسی جاں نشین ہیں ۔ ایک کا سفر اپنے والد کی پھانسی پانے کے بعد شروع ہوتا ہے اور دوسری اپنے والد کا ہاتھ تھامے گرفتار ہوئی تو جبر کے خلاف اس رد عمل پر عوام کے ساتھ ان کا تعارف ہوا ۔ دونوں کو خاتون ہونے اور سیاسی وارث بننے پر بد ترین اور غلیظ ترین میڈیا مہم کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ یہاں تک کہ مُلک کی خاتون وزیر اعظم کو بر بریت کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہ عام طور پہ کہا جاتا ہے کہ یہاں خاندانی سیاست اور وراثت کی اجارہ داری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ایک پارٹی لیڈر یا سیاستدان باپ کا فیصلہ عوام تسلیم کر لیں اور اس کی محبوبیت برقرار رہے ۔ ان دونوں خواتین کے معاملہ میں والداپنی محبوبیت اور وراثت بیٹوں میں بھی منتقل کر سکتے تھے، لیکن وہ یہ بخوبی سمجھتے تھے کہ عوام کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے جسے چاہیں اپنا محبوب راہنما بنا لیتے ہیں ۔ مریم نواز شریف نے شعوری طور پر اس سیاسی سفر کا انتخاب کیا اور درپیش حالات سے نمٹنے میں مدافعانہ طرزعمل اختیار کرنے کی بجائے جارحانہ انداز اپنایا مگر اب وہ مُلک کے بڑے صوبہ کی وزیر اعلیٰ ہیں ۔ اس آئینی اور انتظامی عہدہ کے اپنے تقاضے ہیں جسے پورا کرنے کے لیے کسی سیاسی وابستگی سے الگ رہنا پڑتا ہے ۔ آج پنجاب کو پہلے سے کہیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے ، یہ بجا کہ مریم نواز کو براہ راست کسی ایسے انتظامی عہدہ کا تجربہ نہیں لیکن اُنہیں اپنے والد اور چچا کی نہ صرف مشاورت حاصل ہو گی بلکہ وہ ایک عرصہ سے ان کی طرز حکمرانی دیکھ چکی ہیں ۔ سب سے بڑھ کر ان کا خاتون ہونا بھی تقویت کا باعث ہو سکتا ہے ۔ ایسے میں انہیں ماضی کے تلخ تجربات اور منفی طرز سیاست کے نقصانات سے بھی سبق لینا پڑے گا ۔ اُنہیں شاید یاد ہو کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو میاں صاحب نے سخت الفا ظ میں تنقید کی اور ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا کہ وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جو عورت کو اپنا حکمران بنا لے ۔ اُس زمانے میں بے نظیر بھٹو کو روایتی مذہبی طبقات کی مخالفت اور منافرت کا شدید سامنا کرنا پڑا مگر اب قدرے حالات بدل گئے اور مریم نواز کو مذہبی حوالے سے کسی ایسی تنقید کا سامنا نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کو بھی عورت کی حکمرانی پر کسی نوع کا تحفظ نہیں ہے ۔ انہیں چاہیے کہ اب جہاں خواتین کے بارے میں عمومی ترقی اور رکاوٹوں کا جائزہ لیں ، معاشرتی ترقی میں عورتوں کے خلاف جنسی امتیازات پر توجہ دے وہاں سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کے خلاف بے بنیاد مقدمات اور غیر قانونی قید وبند سے آزاد کرے ۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ اُنہوں نے وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے ہی اسمبلی میں یہ برملا کہا کہ میرے دل میں کسی سے انتقام لینے کی خواہش نہیں ، جن لوگوں نے ووٹ نہیں دیا ان کی بھی وزیراعلیٰ ہوں بلکہ سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہوں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اپنے مخالفین کو بّرا بھلا کہنے، دھمکی دینے یا گالم گلوچ سے کچھ نہیں ہوتا ، صرف اپنی شخصیت کا وقار باقی نہیں رہتا اور سیاسی میدان میں اس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔
اس لیے انہیں اپنی پہلی تقریر کی باتوں کا پاس ہونا چاہیے اور یہ محض تاثر جمانے کو خالی خولی باتیں نہ ہوں ۔ اب وہ اپنے جذباتی پن ، من مانیوں اور سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر عوامی خدمت اور ٹھوس کارکردگی پہ توجہ دے تا کہ اپنے پیش کردہ پروگرام کے مطابق پنجاب کے مسائل حل
کرنے میں کامیاب ہو سکے ۔ جس طرح اُنہوں نے کھلے الفاظ میں کرپشن کے لیے عدم برداشت کا اظہار کیا ہے ، اسی طرح اگر اپنے سیاسی مخالفین کے لیے مکمل برداشت کا رویہ اپنا لے تو یہ اُن کی حوصلہ مندی اور معاملہ فہمی کی اعلیٰ مثال ہو گی ۔ اُنہوں نے صوبہ میں مسائل کی درست نشاندہی کی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب کی افسر شاہی غالب نہ آئے ، ان کے روایتی سرخ فیتے کا شکار نہ ہو بلکہ اپنے ویژن کے مطابق ہر شعبہ کے ماہرین کی معاونت سے صوبہ کی ترقی میں بہترین کارکردگی کی مثالیں قائم کرے اور سب سے بڑھ کر عوام کی پریشانیوں کا سدباب کرتے ہوئے ان کی محبتوں کو سمیٹے ۔ مُلک میں سیاست کے حوالے سے اہل فکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ میڈیا کے منفی پراپیگنڈے سے جب کسی کی ساکھ خراب ہو جاتی ہے تو پھر ترقیاتی کاموں کا ڈھول پیٹنے سے بھی عوام کا تاثر تبدیل نہیں ہوتا ۔اب بیانیہ اور نعرے مقبول ہو رہے ہیں اور یہی عوام میں کشش کا باعث ہیں ۔ ایک سیاسی جماعت کی بیانیہ سازی نے حالیہ انتخابات میں کیسا کمال دکھایا ہے ۔ یوں بھی نہ ہو کہ کام چھوڑ کر صرف بیان بازی تک محدود رہا جائے۔ اپنے منشور پر عمل کرنا اور عوام کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنا اہم ہے ۔ اگر مخالف جماعت نے اپنے اقتدار میں مفاد عامہ اور مُلکی ترقی کے لیے اچھے منصوبے شروع کیے تھے تو ان منصوبوں کو روک دینے کی بجائے جاری رکھنا ایک پسندیدہ عمل ہے اور اس حوالہ سے نئی منتخب خاتون وزیر اعلیٰ نے ہیلتھ کارڈ کونئے ڈیزائن کے ساتھ جاری رکھنے کاعلان بھی کیا ہے ۔ عوام نے اس بات کو سراہا ہے ۔ ہمارے ہاں سیاست میں اختلاف رائے کی بجائے گالم گلوچ اور ذاتی دشمنی عام ہو چکی ہے بلکہ گزشتہ چند سالوں میں یہ مخالفت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے ۔ بر سر اقتدار جماعت اپنے مخالفین کے درپے ہوتی ہے جبکہ اپوزیشن ہر حکومتی کام میں رخنہ اندازی کو وطیرہ بنا لیتی ہے یہی وجہ کہ ایک اکثریت اپنے خدشات ظاہر کر رہی ہے کہ یہ لڑائی اب بھی جاری رہے گی ۔ پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ نے اگر مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا ہے تو اپوزیشن بھی ایسی رواداری پیش کرے ۔ دونوں نیک نیتی اور خلوص سے اس پر عمل پیرا ہوں تو بڑے بڑے مسائل بھی آسانی سے حل ہو سکتے ہیں ۔ کشیدگی کسی بھی صورت میں جمہوریت اور ریاست کے لیے ساز گار نہیں ہو سکتی ۔ اہل پنجاب امید رکھتے ہیں کہ اُن کی خاتون وزیر اعلیٰ سیاسی اختلاف کو کسی طور پہ بھی اپنے عہدے پر مسلط ہونے نہیں دے گی ۔

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟