عدالت ہی سے کچھ کرنے کی توقع ہے

پشاور ہائیکورٹ نے صوبے میں بڑھتی مہنگائی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کی جو غیر حقیقی تصویر پیش کی ہے اس میں اضافہ کی ضرورت نہیں ،عدالت میں کہاگیا کہ ضلعی انتظامیہ نے آج کل یہ ایک ٹرینڈ بنایا ہوا ہے کہ روزانہ دو تین دکانداروں کو جرمانہ کرکے تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ دو چار بندوں کو پکڑ کر فیس بک پر تصاویر ڈالنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہوںگے۔ یہ صرف رمضان کیلئے نہیں ہے، سرکاری نرخ نامہ پر عمل درآمد رمضان کے بعد بھی ہونا چاہیے۔ قبل ازیں درخواست گزار عباس سنگین نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری ریٹ پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا اور لوگ مہنگے داموں میں اشیا ء رمضان میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت دکاندار عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ درخواست گزار نے مزید بتایا کہ غیر معیاری گوشت انڈیا سے آ رہا ہے جس سے قیمہ بنایا جا رہا ہے، مگر اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے لوگ رمضان میں بھی مہنگے داموں اشیا ء خریدنے پر مجبور ہیں جو روزانہ ان کی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوٹو سیشن سے کام نہیں چلے گا ،ان ذخیرہ اندوزوں کیخلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے ،گو کہ یہ عدالت کا نہیں انتظامیہ کاکام ہے اور سربراہ حکومت کو اس کا ادراک ہونا چاہئے ،مگر ہرجانب بے حسی پر مایوسی کے بعد عدالت سے رجوع ہی کا چارہ کار بچتا ہے، عدالت کو صورتحال سے بخوبی آگاہی بھی ہے اور عوام و میڈیا کے ذریعے صورتحال سے مزید آگاہی بھی ممکن ہے ،بہرحال صورتحال واضح ہے اور انتظامیہ کی ناکامی و نمائشی اقدامات کوئی پوشیدہ امر نہیں انتظامیہ ڈنگ ٹپائو ہی کرتی آئی ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ عدالت عالیہ عوام کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے کیلئے حکومت اور انتظامیہ کو مستقل طور پرپابند کرنے کیلئے کوئی مانیٹری نظام وضع کرے گی اور عدالت عالیہ میں اس حوالے سے حصول شکایت و کارروائی وجواب طلبی کا کوئی ٹھوس طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت