بارشوں سے ہوئے نقصانات اور حکومتی ذمہ داری

خیبر پختونخوا ،پنجاب اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بارشوں سے ہوئی تباہی اور آسمانی بجلی گرنے سے مجموعی طور پر 26 افراد کی ہلاکت اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے سے محولہ علاقوں میں مشکلات کے اثرات قابل افسوس ہیں، چترال میں خاتون سمیت دو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ، بمبوریت میں سینکڑوں سیاحوں کے پھنس کر رہ جانے سمیت مواصلات کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، نہا گدرہ اور براول میں تین بچوں کی ہلاکت ،کمراٹ روڈ کئی مقامات پر بند ہونے، دریائے پنجکوڑہ میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری جبکہ میاندم میں بھی ایک بچے کے تودے کی زد میں آنے سے کئی مکانات منعدم ہونے کی اطلاعات بھی تشویش ناک ہیں، ادھر جنوبی پنجاب میں 16 جبکہ بلوچستان میں آٹھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، رحیم یار خان، بہاولپور ،لودھراں اور بہاول نگر میں آسمانی بجلی گرنے سے صورتحال مخدوش ہونے کی اطلاعات ہیں، جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ کھڑی فصلوں کو جو شدید نقصان پہنچا ہے وہ اس کے علاوہ ہے، بہت سی جگہوں پر دیگر فصلوں کے علاوہ خاص طور پر گندم کے کھیتوں کو شدید نقصان سے گندم کی فصل کے شدید طور پر متاثر ہونے کی اطلاعات بھی خاصی تشویش ناک ہیں جن کی وجہ سے ملک میں گندم کے مجموعی پیداوار پر منفی اثرات پڑنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ بعض اضلاع میں گندم کی کٹائی یا تو ہو چکی تھی یا ہو رہی تھی مگر اکثر علاقوں میں فصلیں ابھی کھڑی تھیں،جن کو حالیہ بارشوں اور ژالہ باری نے شدید طور پر متاثر کیا ہے یہی حال دیگر سبزیوں وغیرہ کا ہے، کھڑی فصلیں تباہی سے دوچار ہونے کی وجہ سے اس وقت بھی مارکیٹ میں سپلائی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، اور تازہ ترین اطلاعت کے مطابق ٹماٹر 500 روپے کلو تک جا پہنچے ہیں، جبکہ اگر گندم کی فصل اطلاعات کے عین مطابق تباہی سے دوچار رہی تو ملک میں نہ صرف گندم کی قلت کے خطرات سر اٹھائیں گے بلکہ بارشوں سے متاثر ہونیوالی گندم سے آئندہ دنوں میں اچھی کوالٹی کا آٹا اور دیگر اشیاء یعنی معدہ، سوجی وغیرہ بھی حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا ،ماضی میں بارشوں سے متاثرہ گندم سے جو آٹا پسوایا گیا تھا وہ اس قدر کمزور اور ناقص کوالٹی کا تھا کہ اس سے روٹی وغیرہ پکنے میں خاصی دقت ہوتی تھی، اس لئے اگر اب کے بھی یہی صورتحال رہی توملکی ضرورت کیلئے بھاری مقدار میں باہر سے گندم منگوانا پڑے گی اور درآمدی سودوں کیلئے زر مبادلہ کی ضرورت کہاں سے پوری ہو سکے گی یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیونکہ ملک کے اندر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے پہلے ہی ہم آئی ایم ایف کے دست نگر ہیں ،اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے جس حکمت عملی کی ضرورت ہے اس حوالے سے مناسب اقدامات اور تدابیر کی ضرورت ہے اور ماہرین اقتصادیات سے مشوروں کی اشد ضرورت ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے ”ریکٹ” موجود ہیں جو ایسے حالات سے ہمیشہ فائدہ اٹھانے کیلئے آگے آگے رہتے ہیں یعنی اگر گندم اور گنے کے بمپر کراپس ضرورت سے زیادہ ہو جاتے ہیں تو حکومت سے اضافی گندم اور چینی کی برآمد کیلئے پرمٹ حاصل کر کے برآمدات سے قیمتی زر مبادلہ سے تجوریاں بھر لیتے ہیں اور وہاں بھی ڈنڈی مارتے ہوئے اصل مقدار سے کئی گنا زیادہ برآمدات کر کے ملک میں ان اشیاء کے ذخائر کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور جب ملک میں قلت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر انہی برآمد شدہ گندم اور چینی وغیرہ کی واپس درآمد کرنے کی کارروائیاں شروع کر کے بار دیگر تجوریاں بھر لیتے ہیں، اب جبکہ ان بارشوں اور ژالاباری کی وجہ سے پہلے ہی گندم کی فصل پر منفی اثرات پڑنے کا احتمال ہے تو حکومت محولہ ریکٹ سے ہوشیار رہے ، اور ان کو درآمد یا برآمد کے لائسنس جاری کرنے میں احتیاط سے کام لے تاکہ ملک میں گندم اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی کمی پیدا نہ ہو سکے، اسی طرح متاثرہ کسانوں کو مالیہ اور آبیانہ معاف کر کے ان کی دادرسی کا بھی سامان کیا جائے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں جبکہ انہیں آسان قسطوں پر قرضے ادا کرنے کے علاوہ سستے داموں بیچ اور کھاد کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے اور متاثرین کی ہر ضروری مدد پر بھی توجہ دی جائے تاکہ انہیں سکھ کا سانس لینے میں آسانی ہو۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو