p613 197

نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون

ملاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ اور آٹو سکریپ سے بننے والی گاڑیوں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پولیس نے کریک ڈائون شروع کر دیا ہے’ ملاکنڈ میں آٹو سکریپ سے بننے والی گاڑیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے’ جو عام گاڑیوں کی نسبت پچاس سے ستر فیصد تک سستی ہوتی ہیں’ ان گاڑیوں میں ٹمپرڈ گاڑیاں بھی ملتی ہیں جب کہ چوری شدہ گاڑیاں بھی ان گاڑیوں کی آڑ میں چلتی ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن میںچلنے والی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اگرچہ وہاں کے مقامی افراد روزگار مثلاً ٹیکسی کے طور پر بھی چلاتے ہیں جس سے ان کا روزگار جڑا ہوا ہے ‘ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مقامی لوگوں کے روزگار ختم ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ تاہم نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی آڑ میں سرکاری خزانے کو نقصان پہنچ رہا تھا اور شرپسندی کے واقعات میں استعمال ہونے والی زیادہ ترگاڑیاں بھی نان کسٹم پیڈ اور آٹو سکریپ گاڑیاں ہوتی ہیں۔ قبائلی اضلاع کے صوبے میں ضم ہونے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے چند سال تک ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے’ انفراسٹرکچر کے لیے بھی اضافی فنڈز مختص کیے گئے ہیں تاہم مراعات کے نام پر غیر قانونی اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیوں کہ غیر قانونی اقدام مزید کئی خرابیوں کا باعث بنتا ہے’ اس پس منظر کے بعد پشاور ہائی کورٹ کا نان کسٹم پیڈگاڑیوں کے خلاف فیصلہ اور پولیس کا کریک ڈائون احسن اقدام ہے تاہم ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نان کسٹم پیڈ کٹ گاڑیوں کو قانونی بنانے کا طریقہ کار اور مناسب جرمانہ بتایا جائے تا کہ جو لوگ غیر قانونی گاڑیوں کو قانونی بنانا چاہیں وہ جائز راستہ اپنا کر گاڑیوں کو قانونی بنا سکیں۔
شادی ہالز کو مشروط اجازت
کورونا کی دوسری لہر میں وفاقی و صوبائی حکومتوں نے کاروبار کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے’ یہی وجہ ہے کہ دیگر کاروبار کی طرح شادی ہالز کو بھی بعض ایس اوپیز کے ساتھ مشروط اجازت دی گئی ہے’وزارت صحت کے ہدایت نامہ کے مطابق شادی ہالز اور مارکیز کو ہوا دار اور کشادہ بنانا ہو گا ‘ اسی طرح شادی ہالز کی کھڑکیوں کی تعداد زیادہ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ کینوپی کی چھت اور دیواروں کے درمیان خاطر خواہ فاصلہ رکھنا ہو گا۔ کرسیوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ ‘ ماسک اور سینٹائزر فراہم کرنا’ شادی میں شرکت کے لیے آنے والوں کا درجہ حرارت چیک کرنا اور شادی کی تقریب کا دورانیہ دو سے تین گھنٹے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ شادی ہالز اور مارکیز کے حوالے سے حکومت نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے’ کیونکہ ایس او پیز کا تعین نہ ہونے کے باعث متعدد ایسے مسائل جنم لے رہے تھے۔ گلی محلے کی شادیوں میں بھی پولیس کی جانب سے روک تھام کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں’ اسی طرح بندش سے شادی ہالز کے لیے بھی کئی طرح کے مسائل رہے ہیں’ حکومت کے اس فیصلے سے شادی ہالز کا کاروبار بھی نہیں رُکے گا اور عوام کو شادی کے لیے ہالز کی بکنگ کے سلسلے میں بھی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جن ایس او پیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے ان پر ہر صورت عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ دوبارہ شادی ہالز کو بند کرنے کی نوبت نہ آئے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار