p613 206

ہراسانی کی روک تھام بارے قانون سازی میں تاخیر

جنسی ہراسانی کی روک تھام کیلئے حکومت ہو یا حزب اختلاف کے اراکین سبھی کو اتفاق ہے اس مسئلے کی سنگینی اور تعلیمی اداروں میں سامنے آنے والے اور ممکنہ طور پر کئی پوشیدہ واقعات کے تناظر میں اب اس امر کی کوئی گنجائش باقی نہیں کہ اس حوالے سے سخت سزاؤں پر مبنی قانون سازی کی جائے، جنسی ہراسانی کے الزام کی تحقیقات کا طریقہ کار سہل اور شکایت کنندہ کی شکایت اور الزام کو ثابت کرنے کے حوالے سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، کم ازکم اب تک سامنے والے واقعات کو دیکھتے ہوئے بآسانی یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود ہمارا نظام، قانون اور معاشرہ مظلوم کیلئے سازگار اور مددگار نہیں۔ صوبے میں زیادتی کے بڑھتے واقعات کے باوجود حکومت کی طرف سے قانون سازی میں تاخیر کو کیا نام دیا جائے اس سے قطع نظر تاخیر کی صورتحال اب اسی قدر ناقابل برداشت ہوگی کہ سپیکر کو مسودہ قانون پیش کرنے کی رولنگ دینی پڑی۔ معلوم نہیں حکومت کی تاخیر کی وجہ کیا ہے اور کیا دباؤ اور مشکل ہے کہ ایک ضروری مسودہ قانون کی تیاری اور ایوان میں پیش کرنے میں مہینوں کی تاخیر ہورہی ہے۔ یہ کوئی ایسا متنازعہ سیاسی وگروہی معاملہ نہیں کہ معاشرے کے کسی طبقے کو اس پر اعتراض ہو یہ تو سارے والدین سے لیکر ہر ادارے کے سربراہ کو مطلوب ہے ہر کوئی اس امر کیلئے کوشاں ہے کسی نہ کسی طرح اس عفریت کا مقابلہ کیا جاسکے۔ حکومت سے تاخیر جس وجہ سے بھی ہوئی ہو کم از کم مزید تاخیر نہ کی جائے اور سپیکر کی ہدایت کے مطابق جلد سے جلد مسودہ قانون کی ایوان سے منظوری لی جائے اور اس کے نفاذ کے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں اس امر کو خاص طور پر یقینی بنایا جائے کہ اس کا نفاذ یقینی ہو اور کوئی ایسی خامی باقی نہ رہے جس کا ملزم کو فائدہ ہو۔
احتجاجاً چائے ہی ٹھکرا دیتے!
خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کے اراکین کا ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کیخلاف وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے خیمہ زن ہو کر احتجاج کتنا سیاسی اور کتنا حقیقی ہے اس کا تعین کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں لیکن احتجاجیوں کا وزیراعلیٰ کی طرف سے بھجوائے گئے سامان تواضع پر ہاتھ صاف کرنا ان کے احتجاج کے اثر کو زائل اور منفی تاثر کا باعث امر ہے۔ حزب اختلاف کے اراکین وزیراعلیٰ کی چائے ٹھکرا دیتے تو یہ ایک مہذب وموثر احتجاج ہوتا، پختون روایات کے مطابق تو یہ خاصی سنجیدگی کا مظہر معاملہ ہوتا ۔پہلے روز احتجاج شروع ہوتے ہی وزیر اعلیٰ کی مہمان نوازی سمجھ کرنہ صرف ہنسی خوشی قبول کرنا بلکہ وزیر اعلیٰ کے اس اقدام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا اس احتجاج کو نورا کشتی قرار دینے کیلئے کافی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف کے اراکین اگر تھوڑی سی سنجیدگی اختیار کرتے تو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے ان کا احتجاجی کیمپ لگانا خاصا مؤثر حربہ ثابت ہوتا۔
نوجوان ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت
ایک ایسے وقت میں جب خیبر ٹیچنک ہسپتال کی انتظامیہ و ذمہ دار عہدوں پر تعینات ڈاکٹروں کی سنگین غفلت سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے باعث حکومت اور ادارے دونوں کو سبکی کا سامنا ہے۔ وزیراعلیٰ برہم اور وزیرصحت کا سرخم ہے، دو نوجوان ڈاکٹروں کی قربانی وجدوجہد تصویر کا وہ روشن رخ ہے جسے جتنی مرتبہ دیکھیں حوصلہ افزائی ہی نہیں دل مطمئن ہوتا ہے کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے، خاص طور پر وہ خاتون ڈاکٹر جن کی ہسپتال میں ڈیوٹی نہیں تھی بلکہ وہ ماں کی تیمارداری کیلئے موجود تھیں، صد خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ دوسرے نوجوان ڈاکٹر کا ساتھیوں کو بلا کر مریضوں کو رضاکارانہ طور پر ممکنہ متبادل طریقے سے آکسیجن کی فراہمی اور آکسیجن سیلنڈر لانے اور لگانے کی سعی صد تحسین کا حامل کردار وعمل ہے اگرکہا جائے کہ ان دو ڈاکٹروں اور ان کے ساتھیوں نے مسیحا قرار دئیے جانیوالوں کی مسیحائی کی لاج رکھی تو غلط نہ ہوگا ورنہ اعلیٰ عہدوں پر فائز طبی عملے نے تو محکمہ صحت کے نظام اور تدریسی ہسپتال کا نام ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جہاں قصوروار کو سزا دینے اور کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے وہاں اس طرح کے رضا کاروں کی خدمات پر انہیں ایوارڈ نہ دینا انصاف نہ ہوگا۔ معاشرے اور حکومت دونوں کا فرض ہے کہ ان نوجوان ڈاکٹروں کے کام کو سراہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی عملی طور پر قدر کی جائے تاکہ دوسرے بھی راغب ہوں۔توقع کی جانی چاہئے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جلد ان نوجوان ڈاکٹروں کو ملاقات کیلئے بلا کر شاباش دیں گے۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس