5 265

یونیورسٹی آف دیر کا خواب شرمندہ تعبیر کب ہوگا

دیر جو قدرتی حسن سے مالا مال ضلع ہے اور جہاں سیاحت کے بہترین مقامات موجود ہیں وہاں یہ علاقہ بنیادی سہولیات کیساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں بھی باقی اضلاع سے کافی پیچھے ہے۔ یہ علاقہ پاکستان بننے سے پہلے ایک نواب کی دسترس میں تھا، جس کو نواب آف دیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر نواب کی طرح دیر کا نواب بھی علاقے کی قسمتوں کے فیصلے کرتا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دیر کے نواب شاہجہان نے اپنے دورحکومت میں ایک بھی سکول نہیں بنایا کیونکہ اگر وہ تعلیم عام کرنے کی کوشش کرتا تو رعایا اس کی برابری کرنے لگتے، اس لئے ہر علاقے کے نواب کی طرح دیر کے نواب نے بھی علاقے میں کسی سکول کی بنیاد اپنے دورحکومت تک نہیں رکھی، جس وجہ سے علاقے میں تعلیم کی شمع نہ جل سکی اور لوگ تعلیم سے محروم رہے اور نوابوں کی غلامی کرتے رہے اور جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے آرہا ہے کہ یہ علاقہ باقی اضلاع کی نسبت تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہے اور جو لوگ آج اچھی پوزیشنوں پر فائز ہیں وہ بہت پہلے اپنا علاقہ چھوڑ گئے تھے یا ان کے پاس وسائل تھے، اس لئے انہوں نے باہر تعلیم حاصل کی۔ علاقہ دیر پر 1960 تک دیر کے نواب کی حکمرانی رہی جس کے بعد اس علاقے پر نواب ازم کی حیثیت ختم ہوگئی مگر تب تک علاقہ تعلیم سے دور رہا جس میں زیادہ تر نقصان خواتین کا ہوا۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور سکول قائم ہوگئے۔1990 کی دہائی میں تحریک نفاذ شریعت محمدی اس علاقے سے پروان چڑھی جس کے پیش رو صوفی محمد تھے، صوفی محمد کی سربراہی میں لوئر دیر کے دس ہزار لوگوں نے اپنی جانیں قربان کردیں۔ اس علاقے کے لوگ2001 سے2013 تک پرائی جنگ میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہے جس کی بنیادی وجہ تعلیم سے دوری قرار دی جاسکتی ہے۔یہاں کے عوام نام نہاد جہاد میں شامل ہوئے اور اپنی جانیں قربان کیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے جب ہر ضلع میں سیاسی سکورنگ کیلئے یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی تو ان ضلع دیر کیلئے کوئی یونیورسٹی شامل نہیں تھی۔ چکدرہ میں قائم ملاکنڈ یونیورسٹی کو دیر کے کھاتے میں ڈال دیا گیا جو اپر اور لوئر دیر سے کافی فاصلے پر ہے۔ پھر شرینگل میں قائم عبدالولی خان یونیورسٹی کی شاخ بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی کے نام سے قائم کردی جس کا فاصلہ بھی دیر سے سو کلومیٹر تک پڑتا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے عبدالولی خان یونیورسٹی نے ایک کیمپس تیمرگرہ کے قاضی آباد میں قائم کی جس میں تین شعبہ جات شروع کئے گئے جوکہ52کنال پر مشتمل ہے اور یہ تیمرگرہ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو ایک بہترین جگہ ہے۔ اس علاقے کی سیاسی شخصیت بشیر خان نے دیر سے الیکشن لڑنے کے وقت عوام سے اس یونیورسٹی کو دیر یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا جس کیلئے اس نے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرکے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو ارسال کی مگر اس پر کوئی پیش رفت ابھی تک نہیں ہوئی حالانکہ اس کے بارے میں وزیراعلیٰ محمود خان کے اخباری بیانات ریکارڈ پرموجود ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ بہت جلد تیمرگرہ کے نزدیک قائم عبدالولی خان یونیورسٹی کے کیمپس کو دیر یونیورسٹی کا درجہ دیدیا جائے گا کیونکہ تمام اضلاع کے کیمپسز یونیورسٹیوں میں تبدیل ہوگئے ہیں اور یہ وہ واحد کیمپس ہے جو ابھی تک یونیورسٹی کا درجہ حاصل نہیں کر سکا حالانکہ اس کیلئے کئی مقامات دیکھے گئے ہیں، جہاں پر یہ یونیورسٹی قائم ہوسکتی ہے جس میں سوشل سائنسز، سائنسز کے فیکلٹیوں سمیت دیگر فیکلٹیوں میں ہزاروں طلبہ کو داخلہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ اکثر طالب علم میٹرک اور ایف ایس سی کے بعد تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر سے وہ طلبہ یہاں داخلہ لے سکتے ہیں جو ضلع سے دور یونیورسٹیوں میں داخلے کی سکت نہیں رکھتے اور جس میں اکثریت طالبات کی ہے جو ایف ایس سی کے بعد گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں۔ 2011 سے جب یہ کیمپس بنا تھا تب 90طلبہ نے یہاں داخلہ لیا تھا اب تعداد ایک ہزار کے قریب ہے، سات مزید شعبہ جات میں پانچ ہزار سے زائد طلبہ کو تعلیم کے مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کیلئے فزیبلٹی رپورٹ میں پہلے فیز میں300.436ملین روپے رکھے گئے ہیں جس سے تین پہلے سے قائم شعبہ جات کیساتھ ساتھ مزید سات شعبہ جات شروع کئے جاسکتے ہیں جس کیلئے تنخواہوں کی مد میں پہلے دوسال تک83.496ملین روپے خرچ ہوں گے جوکہ اتنی بڑی رقم نہیں ہے، اس کیلئے کافی رقم ریگولر قائم دس کالجوں کے بارہ ہزار طلبا سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے جو ضلع دیر کے احاطے میں قائم ہیں جبکہ پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یونیورسٹی کو داخلے، امتحانات اور ٹیوشن فیس کی مد میں ہر سال تین سو ملین کی رقم مل سکتی ہے جوکہ ایک اچھی خاصی رقم ہے۔ صوبائی حکومت اگر دیر میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اس کیلئے یونیورسٹی آف دیر کی تعمیر ایک سنگ میل ہوگی جوکہ دیر کے لوگوں کا ایک خواب ہے۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کے عوامل