3 76

میں دن کے وقت بھی گھر سے نکل نہیں سکتا

داتا دربار کا تو مجھے نہیں پتہ کہ وہاں صدیوں سے بھوکوں کو دو وقت کا کھانا لنگر سے فراہم کرنے کا جو سلسلہ چلتا آرہا تھا’ اب اس صورتحال میں وہ سلسلہ جاری ہے یا پھر خوف فساد کورونا کی وجہ سے عوام کے ممکنہ جم غفیر کی وجہ سے موقوف ہوچکا ہے؟ کیونکہ ظاہر ہے داتا دربار کے لنگر سے روزانہ صبح و شام ہزارہا بھوکے مستفید ہوا کرتے تھے بلکہ موقع محل نہ ہوتے ہوئے بھی وہ لطیفہ یاد آرہا ہے جب اخبار میں اشتہار چھپا کہ ملازمت کے متلاشی رجوع کریں تو ایک صاحب جو بیروز گاری سے بہت تنگ آچکا تھا’ مقررہ جگہ پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ ملازمت صرف دو وقت کا کھانا ہی ہے’ تنخواہ کوئی نہیں وہ بے چارہ اس پر بھی راضی ہوگیا تو اسے ٹفن کیریئر دے کر ہدایت دی گئی کہ روزانہ دوپہر اور شام کے اوقات میں دربار سے جا کر نہ صرف خود لنگر سے کھانا کھا لیا کرے بلکہ ٹفن میں ڈال کر ملازمت فراہم کرنیوالے کیلئے بھی لے آیا کرے۔ موجودہ حالات میں اس قسم کے لطیفوں کی گنجائش تو نہیں بنتی تاہم رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جہاں ملک کے اندر ماضی میں جس طرح عوامی دسترخوان بچھا کر غریبوں’ مسکینوں اور مسافروں کو افطار کرایا جاتا تھا اس کم بخت کورونا کی وجہ سے ایسے دستر خ وان بچھانے کی ہمت بھلا کون کرے’ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران کئی ایسی تنظیمیں سرگرم ہوا کرتی تھیں جو شہرکے اہم بازاروں یعنی پشاور کی حد تک قصہ خوانی’ صدر وغیرہ میں افطاری کااہتمام کرتی تھیں لیکن اب تو یہ سب خیال وخواب بن چکے ہیں اور جو لوگ بے چارے دور دراز سے محنت مزدوری کیلئے پشاور کا رخ کرتے تھے اب ان کیلئے کون افطاری دسترخوان کا اہتمام کرے گا کہ اس قسم کے اجتماعات پر حکومت نے ویسے بھی پابندی لگا رکھی ہے بلکہ مساجد کے اندر بھی افطار اور سحری کے اوقات میں ایک ساتھ بیٹھ کر شکم پروری سے منع کر رکھا ہے تو پھر کون جرأت کر سکتا ہے کہ افطار دسترخوان بچھا کر ”کورونا” میں اضافے کا الزام اپنے سر لے اور بقول شاعر
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے’ رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے’ یہاں بستی والے
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
افطار دسترخوان کی یاد اس لئے آئی کہ امریکی شہر نیویارک کے میئر نے پانچ لاکھ مسلمانوں کو مفت حلال کھانے دینے کا فیصلہ کیا ہے’ کورونا کی وجہ سے نیو یارک میں 5لاکھ افراد ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے اور 20لاکھ افراد غذائی عدم تحفظ کاشکار ہوسکتے ہیں۔ میئر نے وعدہ کیا کہ کوئی نیویارکر بھوکا نہیں رہے گا۔ امریکی ٹی وی بلوم برگ کے مطابق میئر ڈی بلاسیو نے کہا ہے کہ نیویارک شہر رمضان المبارک میں مسلمانوں کو نصف ملین حلال کھانا پیش کرے گا’ اس پروگرام کے تحت 20لاکھ رہائشیوں کو کھانا فراہم کیاجاسکے گا جو کھانا خریدنے سے قاصر ہیں’ کھانے کی فراہمی کے پروگرام پر 175ملین ڈالرز کے اخراجات آئیں گے’ بقول سعد اللہ شاہ
اس نے پوچھا جناب کیسے ہو؟
اس خوشی کاحساب کیسے ہو
ماضی میں بھارت کے اندر بھی راشن کارڈوں پر مسلمانوں کو سستا آٹا’ چینی وغیرہ مہیا کرنے کا سلسلہ ہوتا تھا مگر اب تو مودی سرکار کی حکومت میں خود مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی جا چکی ہے اس لئے اب کیا صورتحال ہے کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا تاہم جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے اگرچہ اس سلسلے میں یوٹیلیٹی سٹورز کا قیام عوام کو سستی اشیاء کی فراہمی ہے مگر اب اس پر بھی ایک ”مافیا” کے قبضے کی خبریں آتی رہتی ہیں اور رمضان پیکج کے نام پر جو سہولیات حکومت کی جانب سے عوام کو مہیا کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے اس میں کئی سستی اشیاء کارپوریشن کے بعض عاقبت نااندیش ملازموں کی وجہ سے مارکیٹ میں سپلائی کردی جاتی ہیں اور یوں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے’ رہ گئی عام مارکیٹیں تو ہمارے ہاں ماہ رمضان زیادہ سے زیادہ کمائی کا مہینہ قرار دیا جاتا ہے اور اکثر تاجر عوام پر خودساختہ مہنگائی مسلط کرکے ان کو لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اب کے تو کورونا نے سب کی چیخیں نکال دی ہیں’ کاروبار بند ہیں’ عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے’ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عذاب نہیں ہے؟ اسلئے ہم میں سے ہر شخص کو اپنے اپنے طور پر اپنے کردار کا جائزہ لے کر اللہ کے حضور جھک کر معافی طلب کرنی چاہئے تاکہ اس عذاب سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ رفیق سندیلوی نے کہا تھا
وہ دہشتیں ہیں مسلط کہ شب کا ذکر ہی کیا
میں دن کے وقت بھی گھر سے نکل نہیں سکتا
بالآخر وہی ہوا جس کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے’ یعنی شیخ رشید احمد نے جس کی پیشگوئی پہلے یہ کردی تھی کہ شوگر کمیشن کو مزید وقت دیا جاسکتا ہے اور بالآخر اب کمیشن نے مزید 3ہفتے کی مہلت طلب کرکے کہا ہے کہ کمیشن کو کورونا وائرس کیساتھ ساتھ شوگر انڈسٹری اور سرکاری حلقوں کے عدم تعاون جیسے مسائل کا سامنا ہے’ عدم تعاون کا اندازہ تو کمیشن کے ایک رکن کی جانب سے تحقیقات کی لمحہ بہ لمحہ لیک کرکے ایک وفاقی وزیر تک پہنچانے کے الزام میں منصب سے ہٹائے جانے سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے جبکہ اپوزیشن جماتوں نے پہلے ہی فارنزک رپورٹ کے حوالے سے اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے اسے ” ٹوپی ڈرامہ” قرار دیا تھا اور اب کمیشن نے مزید تین ہفتے کی مہلت مانگ کر اپوزیشن کے خدشات کو تقویت پہنچا دی ہے۔ ادھر جب سے تحقیقاتی رپورٹ لیک ہوئی ہے ”سیاسی دریائوں ” کے نیچے بہت سا پانی بہہ جانے کی نشاندہی کی جارہی ہے’ بہر حال دیکھتے ہیں کہ بالآخر معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یعنی جن پر الزامات ہیں ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا ہے یا پھر یوٹرن کی صورتحال بنتی ہے کہ بقول وسیم عباس
تم مجھے یاں’ وہاں نہ اُلجھائو
ہوسکے تو یہیں کی بات کرو

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار