2 253

یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں

آج ملک کے طول وارض میں اور ملک سے باہر جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں پاکستان کی آزادی کی 73واں جشن منارہے ہیں، پاکستان کی آزادی کا یہ جشن ہر سال اگست کے مہینے کی 14تاریخ کو ملی جوش اور جذبہ سے منایا جاتا ہے، اس دن وطن سے کئے جانے والے محبت اور وفا کے عہد کی تجدید کی جاتی ہے، صبح آزادی کا آغاز مشرق سے طلوع ہونے والے 14اگست کے سورج کی روپہلی کرنوں کیساتھ ہی توپوں کی سلامی سے کیا جاتا ہے، مساجد میں نماز فجر کے بعد قرآن خوانی کی جاتی ہے اور ملک کی سلامتی کیلئے دعائیں مانگی جاتی ہیں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں میں اور ہر صوبہ میں علاقائی سطح پر پرچم کشائی کی جاتی ہے، پاکستان کے قومی ترانہ کے احترم میں کھڑے ہوکر صبح آزادی پاکستان کا بھرپور استقبال کیا جاتا ہے، ملی نغمے گائے جاتے ہیں، ٹیبلو پیش کئے جاتے ہیں، مٹھائیاں اور شیرینیاں تقسیم کی جاتی ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں، عمارتوں اور گزرگاہوں کو پرچموں اور جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے اور رنگا رنگ تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ اگر ہم سال 2020 کے دوران منائے جانے والے جشن آزادی کا تجزیہ کریں، تو ہم نے اب کے سال یکم اگست 2020 کو اپنے دینی تہوار عیدالاضحی کی خوشیاں مناتے ہوئے جشن آزادی کے مہینے کا آغاز کیا، اس کے فوراً بعد ہمیں پانچ اگست 2020 کو مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی نریندرمودی کی غاصبانہ سازش کا توڑ نکالنے کیلئے کشمیر کو پاکستان کا حصہ ظاہر کرنے والے سیاسی نقشہ کے اجراء کی خوشی نصیب ہوئی اور پھر ہم مگن ہوگئے 14اگست کو جشن یوم آزادی کی بھرپور تیاریوں میں، ہماری گلیاں اور بازار سج گئے، پاکستان کے سبزہلالی پرچموں، بیجوں، بروجوں، طرحوں، پی کیپوں اور پاکستان کے سبزہلالی جھنڈوں کے رنگوں سے مزین ٹی شرٹوں، گجروں، گھڑیوں اور جشن آزادی کی مانگ میں افشاں بھرنے والی آرائشوں اور زیبائشوں سے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، عروس آزادی وطن کو خراج پیش کرنے کے یہ انداز ہر سال دہرائے جاتے ہیں، جو ان لوگوں کے سینوں پر دال رگڑنے کا مؤجب بنتے ہیں جو ہماری آزادی کے دشمن ہیں، 73برس سے وہ ہماری آزادی کیخلاف ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ر ہے ہیں، لیکن ہمیں اس بات پر خوشی سے جھوم اُٹھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ 73برس ہوئے ہم ہر محاذ پر اپنی آزادی کی حفاظت کرنے میں کامگار وکامران ٹھہر ے رہے، آزادی کے حصول سے اہم آزادی کی حفاظت کرنا ہے، جب یہ درست ہے تو پھر کیوں نہ منائیں ہم سب ملکر جشن آزادی پاکستان اور کیوں نہ گائیں ہم سب ایک اور صرف ایک آواز ہوکر آزادی کے نغمے کہ
ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان، پاکستان پاکستان
دنیا بھر میں کرونا کی وباء جو پھیلی تو ہمیں اس بات کا خوف ستانے لگا کہ اب کے بار نہ ہم عید قرباں منا سکیں گے اور نہ جشن آزادی، لیکن ہم نے ایس اوپیز کا مقدور بھر اہتمام کرکے یہ دونوں خوشیاں بھرپور انداز سے منانا شروع کردیں، زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح مادر وطن کے صاحبان قرطاس وقلم نے اس بار عروس آزادی وطن کو رشحات قلم کے نذرانے پیش کرنے کیلئے پاکستان اکادمی ادبیات کے زیرانتظام آن لائن ہفتہ آزادی منایا، جس میں وفاقی دارالحکومت سے انٹرنیشنل آن لائن مشاعرہ اور اکادمی ادبیات کے پختونخوا چیپٹر کے زیراہتمام آن لائن کثیراللسانی مشاعروں کا اہتمام کیا گیا۔ آن لائن مشاعرے برپا کرنے کا مقصد ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے اہلیان قوم کو کرونا جیسی جان لیوا وباء سے بچانا تھا، جس میں پوری قوم بہت حد تک کامیاب ہوکر کرونا کو چاروں شانے چت گرا چکی ہے، اس لئے ہم اس جشن آزادی پاکستان کے موقع پر کرونا جیسی جان لیوا وباء کو شکست فاش دینے کا جشن منانے کا بھی حق رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی اہلیان پشاور کو اس طولانی صبر کا میٹھا پھل ملنے کی بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں جسے ‘بی آر ٹی پشاور’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، راقم السطور بی آر ٹی کے نکتہ آغاز سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر پشاور شہر کی ہمسائیگی میں رہائش پذیر ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں جشن آزادی پاکستان منانے کا ہنگام 13 اور 14اگست کی نصف شب سے پہلے شروع ہو جاتا ہے اور پھر جیسے ہی گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیاںآپس میں گلے ملکر آمد صبح نو کی مبارک باد بانٹنے لگتی ہیں، پاکستان کا سبزہلالی پرچم فضا میں لہرا دیا جاتا ہے، پاکستان کے قومی ترانے کی جل ترنگ بجنے لگتی ہے اور فضا آتش بازی کے رنگ ونور کی برسات سے جمگا اُٹھتی ہے اور پھر ہر دل کی آرزو دست دعا بن کر آسمان کی جانب اُٹھتے ہوئے کہہ اُٹھتی ہے کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کیلئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات