p613 77

مشرقیات

مسلمہ بن عبدالملک نے ایک قلعے کا محاصرہ کیا۔ مسلمانوں کو قلعے کی دیوار میں ایک جگہ بڑا سوراخ نظر آیا جس سے ایک شخص داخل ہو سکتا تھا۔ لوگوں نے اس سوراخ کی طر ف دیکھا ایک دوسرے کو توجہ دلائی۔ انہیں اندر کے حالات کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس سوراخ کے پاس کتنے لوگ موجود ہیں۔ آیا اس شخص کو سوراخ سے نکلنے اور لڑنے کا موقع بھی مل پائے گا یا نہیں۔ اسلامی لشکر میں سے ایک غیر معروف شخص سامنے آیا اور کہا میں جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اس سوراخ کے ذریعے قلعے کے اندر چلا گیا اور صورتحال کو سنبھال لیا اور اس کے بعد اور بھی بہت سے لوگ اس کے ذریعے قلعے میں داخل ہوئے اور مسلمانوں نے اس قلعہ کو فتح کر لیا۔ فتح کے بعد مسلمہ بن عبدالملک نے اعلان کیا کہ ”صاحب نقب” یعنی سوراخ کے ذریعے سب سے پہلے اندر جانے والا شخص میرے پاس آئے لیکن کوئی نہ آیا۔ اس نے دوبارہ پھر سہ بارہ یہ اعلان کروایا۔ پھر اعلان کرنے والے کے پاس ایک شخص آیا اورکہا۔ سپہ سالار میرے لئے ملاقات کی اجازت حاصل کرو۔ اعلان کرنے والے نے مسلمہ کو بتایا۔ مسلمہ نے فوراً اجازت دیدی۔ اس شخص نے مسلمہ سے کہا۔ ”صاحب نقب” کی اپنے بارے میں کچھ بتانے کیلئے تین شرطیں ہیں۔ مسلمہ نے کہا۔ اس نے ایسا عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہم اس کی شرط ماننے کیلئے تیار ہیں۔ اس نے کہا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ خلیفہ کو اس کا نام لکھ کر نہ بھیجا جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسے کسی انعام کی پیشکش نہ کی جائے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے اس کا نام نہ پوچھا جائے اور نہ یہ پوچھا جائے کہ اس کا تعلق کس قبیلے سے ہے۔ مسلمہ نے کہا: مجھے منظور ہے اس شخص نے جواب دیا۔ میں ہی وہ شخص ہوں۔ مسلمہ اس واقعہ کے بعد جب بھی نماز پڑھتا تو یہ دعا ضرور کرتا۔ اے اللہ مجھے آخرت میں ”صاحب نقب” کا ساتھ نصیب فرما۔خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا نہایت متقی وپرہیزگار تھا۔ ایک مرتبہ خلیفہ کے دربار میں آئے۔ نہایت عاجزانہ انداز میں کبل کا کرتہ اور سر پر کمبل کی ٹوپی اوڑھے جب اہل دربار نے انہیں دیکھا تو خلیفہ سے کہا اس نے تو آپ کی عزت کم کر کے رکھ دی ہے۔ یہ سن کر انہوں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو دور ایک پرندہ دیکھا۔ اس کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اے پرندے! تجھے اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ہے کہ میرے ہاتھ پر بیٹھ جا، وہ اُڑ کر آیا اور ان کے ہاتھ پر بیٹھ گیا پھر فرمایا کہ دوبارہ اپنی جگہ چلا جا وہ اپنی جگہ چلا گیا۔ پھر انہوں نے دربار میں دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی بقا سے متعلق چند باتیں کیں اور وہاں سے نکل کر دنیا سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی۔(مخزن صفحہ نمبر 345)

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار