5 185

مہذب معاشرے کتنے مہذب؟

اہل مغرب کا دعویٰ ہے کہ روئے زمین پر اس وقت جتنی اقوام آباد ہیں، وہ ان میں سب سے زیادہ تہذیب یافتہ ہیں، ہر ملک اور سماج میں موجود ثناخوان مغرب اپنے آس پاس کے لوگوں کو درس دیتے ہیں کہ اگر وہ مہذب قوم بننا چاہتے ہیں تو انہیں مغرب کی تہذیب کو اپنانا چاہئے، وہ مغرب کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک ہی سانس میں اہل مغرب کی معاملات میں شفافیت، سچ، وقت کا خیال رکھنا اور وعدہ کو ایفاء کرنا جیسے متعدد اوصاف گنواتے ہیں، یہ بھی کہ دورجدید میں اہل مغرب نے ہی نسل انسانی کو ایک ایسی تہذیب سے روشناس کرایا ہے جو جدیدترین تہذیب ہے اور انسانی سوسائٹی کی خواہشات وضروریات کو پورا کرتی ہے۔ مغرب اسی فلسفہ اور سوچ کے تحت دنیا بھر میں اپنی تہذیب کے فروغ اور مخالف تہذیبوں کے خاتمے کیلئے سرگرم عمل ہے چونکہ مغربی دانشوروں کو صاف نظر آرہا ہے کہ مسلمان اپنی تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود مغربی تہذیب کو دل سے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، اس لئے اسلام ہی مغرب کے فکری، تہذیبی اور اعتقادی اعتبار سے سب سے بڑا ہدف ہے۔ مغرب کی تمام تر فریب کاریوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت جانتی ہے کہ جاہلی تہذیب کی وہی قدریں جنہیں نبی کریمۖ نے اپنے پاؤں کے نیچے مسلنے کا اعلان کیا تھا، انہی اقدار اور رویوں کو مغرب نے دوبارہ جھاڑ پھونک کر دنیا کے تہذیبی ایوان میں سجا دیا ہے اور مسلمانوں کو اسی چیز کی تقلید کا درس دیا جارہا ہے جنہیں مسلمان آج سے چودہ سو سال پہلے ترک کر چکے ہیں۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جس کے بے شمار اندرونی وبیرونی مسائل ہیں، ہمارے ہاں جب کوئی معمولی یا غیرمعمولی واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو ایک طبقہ اُٹھتا ہے اور اپنے آئین وقانون، اداروں کی اصلاح اور مشرقی روایات کی پاسداری پر عمل کی بات کرنے کی بجائے مغرب کی تقلید کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتا ہے حالانکہ آج کی مہذب دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں جرائم نہ ہوتے ہوں’ ہاں! ایسا ضرور ہے کہ کسی ملک میں جرائم کی شرح زیادہ ہے تو کسی میں کم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جرائم پر سزائیں دی جارہی ہیں یا نہیں؟ جب کسی محلے میں کوئی جرم ہوتا ہے تو پولیس، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہری حقوق کیلئے حرکت میں آتے ہیں یا نہیں؟ اگر ریاست کی مشینری عام شہری کی شکایت پر حرکت میں آتی ہے اور اسے بغیر کسی تردد اور سفارش یا رشوت کے انصاف کی فراہمی ممکن ہو رہی ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس سماج میں سزاؤں پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور سزاؤں کی وجہ سے جرائم کی شرح بھی نہایت کم ہے۔ یہاں یہ امر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر سزاؤں کے بغیر انسانوں کو سدھارنے یا راہ راست پر لانے کیلئے کوئی طریقہ کار ہوتا تو قدرت کی طرف سے سزاؤں کی بجائے وہ طریقہ کار بتایا جاتا لیکن چونکہ کائنات کو بنانے والے کی طرف سے مختلف نوعیت کے جرائم کی الگ الگ سزاؤں کا تعین کر دیا گیا ہے اس لئے فساد فی الارض سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ سزاؤں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، سزاؤں پر مکمل عمل درآمد کو ہی تہذیب یافتہ اقوام کا نام دہا جا رہا ہے، ترقی یافتہ ممالک اور مہذب اقوام میں بھی جب کبھی ریاست کی رٹ کمزور ہوتی دکھائی دیتی ہے تو جرائم پیشہ افراد اس کا فائدہ اُٹھا کر لوٹ مار اور جنسی جرائم شروع کر دیتے ہیں۔ چند ماہ قبل امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام کی موت کے بعد جب حالات کشیدہ ہوئے تو ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں لوٹ مار کا آغاز ہوگیا، وجہ کیا تھی کہ جب قانون کی گرفت کمزور ہوئی تو جرائم پیشہ افراد کیساتھ ساتھ عام شہریوں نے بھی لوٹ مار میں حصہ لینا شروع کر دیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانوں کو راہ راست پر لانے کیلئے سخت سزاؤں اور ان پر عمل درآمد نہایت ضروری ہے۔اسلام میں سزاؤں کا تصور اور ان سے مقصود صحیح معنوں میں سماج کی بہتری ہے، سزا کا پہلا تصور ظاہری نہیں باطنی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اور اپنی عاقبت خراب ہونے کے ڈر سے جرم کے قریب ہی نہ جائے، یہی وجہ تھی کہ بدکاری کے مرتکب خواتین وحضرات ازخود دربار رسالت میں پیش ہوکر سزا کیلئے اپنے آپ کو پیش کرتے تھے تاکہ وہ سزا پاکر پاک ہو جائیں اور ان کی عاقبت خراب ہونے سے بچ جائے جبکہ اسلام میں سزاؤںکا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سزاؤں کا تعین کر کے سماج کو جرائم پیشہ افراد کے شر سے محفوظ بنایا جائے۔ دونوں مقاصد کا مطلب اگرچہ سماج کو محفوظ بنانا ہے لیکن دیکھا جائے تو اسلام میں سزاؤں کا پہلا تصور زیادہ قوی ہے کیونکہ اس تصور کے باعث انسان جرائم کے قریب بھی نہیں پھٹکتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری عاقبت خراب ہو جائے جبکہ دوسرے تصور میں جرائم پیشہ افراد موقع کو غنیمت جان کر جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اور جہاں کہیں سزاؤں پر عمل درآمد میں مشکلات ہوں یا قانونی کمزوری ہو اس کا فائدہ اُٹھا کر بچ نکلتے ہیں۔ ہمیں ایسی تہذیب کی تقلید سے گریز کرنا چاہئے جو موقع کو غنیمت جان کر جرم کا ارکاب کرنے لگتی ہے بلکہ ان روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو انسان کو جرم سے ہی دور رکھتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار