4 212

جرائم کی رپورٹنگ اور میڈیا کا کردار

پاکستان میں جنسی جرائم اور بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان واقعات کی غیرمحتاط رپورٹنگ میں اضافے سے ذہنی ونفسیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ ان دونوں چیزوں کا آپس میں تعلق کوئی اتفاق نہیں کہ اب دنیا بھر میں اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان میں لوگ اب تک اس حقیقت کو سمجھ نہیں پائے کہ یہ تمام خرابیاں ہمارے معاشرے میں پہلے بھی موجود تھیں البتہ اب انہیں نہایت غیرذمہ دارانہ’ غیراخلاقی اور متعصب طور پر رپورٹ کیا جانے لگا ہے اور ایسی رپورٹنگ نوعمر ناظر ین’ سامعین اور قارئین پر نہایت منفی طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اُٹھایا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں ذہنی امراض کا نوعمر اذہان کیساتھ کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بڑے بوڑھے اس بارے میں نہایت محتاط رہتے تھے کہ وہ بچوں کے سامنے کیسی گفتگو کر رہے ہیں۔ والدین کی جانب سے بھی بچوں کیلئے اخباری یا برقی ذرائع ابلاغ میں قابل اعتراض مواد یا تصاویر کیلئے ”سینسرشپ” پر عمل کیا جاتا تھا۔ اس احتیاط کی وجہ یہ تھی کہ بچوں کے اذہان ایسی کسی بھی چیز کیلئے نہایت حساس ہوتے ہیں اور بچپن کے تجربات ان کی آگے کی زندگی میں ان کے رویوں پر دائمی اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بات اکثر لوگ جانتے ہیں کہ وہ افراد جو جنسی جرائم میں ملوث ہوں، اپنے بچپن میں وہ ایسے ہی جنسی جرائم یا تشدد کا شکار رہے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے والے افراد کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔ پدرشاہی معاشرہ اور اس میں رچی ذہنیت ہمارے لئے ایک صحت بخش ماحول میں زندگی گزارنے میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔ یہ تمام چیزیں کس حد تک ذہنی عارضوں کا سبب بن رہی ہیں، اس حوالے سے ملک بھر کے ماہرین نفسیات نے ذہنی صحت کے عالمی دن کے حوالے سے پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ کی جانب سے منعقدہ ایک کانفرنس میں کھل کر اظہار خیال کیا۔ اس میں نوجوان نسل میں نشے کے بڑھتے رجحان کے تدارک کیلئے گروپ کونسلنگ اور آگہی پھیلانے جیسے اقدامات پر زور دیا گیا۔ ہمیں اپنے ہاں رائج صحت کے معنی بدلنے کی ضرورت ہے، صحت ایک مکمل خوشگوار حالت اور بھلائی کا نام ہونا چاہئے ناکہ محض بیماری کے نہ ہونے کا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی جانب سے پھیلائی جانے والی سنسنی کے اثرات کے سے بچنے کیلئے صحت بخش رویوں
کی ترویج کریں۔ یہ ذرائع ابلاغ دنیا کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں، انہوں نے ان عام انسانی تعلقات کو ختم کر کے رکھ دیا ہے جو کبھی جذباتی بندھنوں اور بہتر ذہنی صحت کے ضامن ہوا کرتے تھے۔ مگر کیا اس کے حل کے طور پر ذرائع ابلاغ پر سرے سے پابندی ہی لگا دینا درست حل ہوگا؟ ہرگزنہیں۔ ایسے اقدامات سے چنداں کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ مزاحمت اور تنازعات کو جنم دینے کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں دو طریقے ہیں جو اپنائے جاسکتے ہیں، پہلا یہ کہ ہمیں عوام اور میڈیا سے وابستہ افراد کو خواتین کیخلاف تشدد اور جنسی جرائم کے حوالے سے حساسیت کا ادراک دلانا ہوگا۔ اس ضمن میں ذہنی صحت کے ماہرین بھی عوا م کو سیاستدانوں کے خفیہ عزائم، مذہبی طبقوں کے مقاصد اور میڈیا کے کاروباری مفادات کے بارے میں آگہی فراہم کر کے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھانا اب اہم ہو چکا ہے کہ کس طرح سنسنی پھیلانے والے اپنے اس عمل سے مالی مفادات اور طاقت حاصل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ نئی نسل کو حاصل شتر بے مہار آزادی کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، خاص کر تب جب یہ بلوغوت کی عمر کو پہنچ چکے ہوں اور اپنے اندر کئی طرح کی
جسمانی تبدیلوں سے جوجھ رہے ہوں۔ ایسے میں ان کیلئے جذباتی سطح پر ہمدردری، خیال اور خاندانی ساتھ ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ والدین کیلئے نہایت آزمائش کا وقت ہو سکتا ہے البتہ اپنے بچے کی موزوں تربیت اور پرورش کیلئے کردار ادا کرنے کی ذمہ داری بھی سب سے بڑھ کر انہی پر عائد ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا آج کل کے دور میں غلط معلومات کے پھیلاؤ اور حقیقت کو مسخ کرکے دکھانے کا آلۂ کار بنا ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے میڈیا کے اداروں کو جرائم اور دہشتگردی کے واقعات کی ٹھیک طرح سے رپورٹنگ کرنے کی تربیت فراہم نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں رہنمائی اور ورکشاپس وغیرہ کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔ البتہ یہ ٹک ٹاک جیسی اپیلیکشنزکو مکمل طور پر بند کر دینا ہمیشہ نقصاندہ ہی ثابت ہوگا۔ پابندیاں لگانے کی بجائے پیمرہ کو واضح ہدایات جاری کرنی چاہئیں کہ کس طرح نیوز چینلز متشدد مناظر دکھائے بغیر واقعات کی رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔ چیختے چنگھاڑتے نیوز اینکرز اور گالم گلوچ کرتے سیاستدانوں کو بھی اپنی گفتگو میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اس چیز کا ادراک کرنا چاہئے کہ ان کا یہ رویہ کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔ آخر پیمرہ ایسے سماجی، ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں پر توجہ کیوں نہیں دیتا جو دیکھنے والوں پر ایک مثبت اثر چھوڑ جانے کی طاقت رکھتے ہوں؟
(بشکریہ: ڈان، ترجمہ: خریمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت