syed zeshan 7

آلودہ پانی پینے پر مجبور عوام

پینے کا صاف پانی ہر شہری کا بنیادی حق ہے کیونکہ پانی کے بغیر زندگی کی سانسیں قائم رہنا ناممکن ہے، ہم روزانہ جو مضرصحت پانی استعمال کر رہے ہیں، اس سے متعدد مہلک امراض پھوٹ رہے ہیں، عدالت عظمیٰ نے آلودہ پانی کے فروخت کی روک تھام کیلئے انتظامیہ کی توجہ بارہا اس جانب مبذول کرائی، تاہم مضرصحت پانی کی فروخت کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈائریا اور گیسٹرو کے سالانہ 10کروڑ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، یہ امراض بچوں، بوڑھوں اور دل کے مرض میں مبتلا افراد کیلئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، اسی طرح ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں چالیس فیصد اموات آلودہ پانی پینے کے باعث ہوتی ہیں۔ پاکستان کے صرف15سے20فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر ہے، یہ قلیل تعداد بھی گاؤں دیہات یا پہاڑی علاقوں کے لوگوں کی ہے، گنجان شہروں کی 80فیصد سے زیادہ آبادی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، ایک سروے رپورٹ کے مطابق آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کی مد میں حکومت کو سالانہ 112ارب روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ آمدن میں کمی کے باعث یومیہ 30کروڑ روپے کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان کی ایلیٹ کلاس فلٹر شدہ پانی استعمال کر سکتی ہے لیکن کیا فلٹر شدہ پانی صاف اور صحت کیلئے نقصان دہ نہیں ہوتا ہے؟ اس کیلئے عدالت عظمیٰ کا وہ فیصلہ کافی ہونا چاہئے جس میں عدالت عالیہ نے درجنوں کمپنیوں کے پانی کو غیرمعیاری قرار دیا تھا۔
پانی کے معیار کو جانچنے کیلئے چند سال قبل ملک بھر میں 1.2ارب روپے کی لاگت سے اسٹیٹ آف دی آرٹ کے تحت 24واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں، تاہم ان لیبارٹریز کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہے، پاکستان کے اکثر علاقوں کا زیرزمین پانی زہریلا ہو چکا ہے، بڑے شہروں میں سپلائی کا سسٹم قدیم ہونے کے باعث اکثر جگہوں پر سیوریج اور پینے کے پانی کی زنگ آلود لائنوں میں مل جاتی ہیں جو شہریوں کیلئے ہلاکت کا سبب بن رہا ہے، اس لئے نلکوں میں بظاہر صاف دکھائی دینے والا پانی بھی آلودہ اور صحت کیلئے نہایت مضر ہوچکا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آبپاشی کا نظام برطانوی سامراج کے دور کا استعمال کیا جا رہا ہے جو آج کے زمانے کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں پانی کی آلودگی بہت سی بیماریوں کا ذریعہ بن رہی ہے، عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ پاکستان میں پانی کے معیار کو چیک کرنے کیلئے مناسب انتظام موجود نہیں ہے، کئی علاقوں میں تو پانی کا معیار چیک کرنے کیلئے سرے سے ادارے ہی موجود نہیں ہیں اور جہاں ادارے ہیں ان لیبارٹریز میں افراد اور سازو سامان کا فقدان ہے۔ تحفظ ماحول کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نکاسی سے پہلے صرف ایک فیصد صنعتی فضلے کا ٹریٹمنٹ کیا جاتا ہے۔ گنے کی فیکٹریاں ایک ہی دن میں کئی لاکھ مکعب میٹر گندے پانی کی دریائے سندھ میں نکاسی کرتی ہیں۔ اس فضلے سے نہ صرف سمندری حیات کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ آلودہ پانی پینے والے انسانوں کو بھی سنگین خطرات کا سامنا ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں انسانی جانوں کو محفوظ بنانے کیلئے اگرچہ بہت سے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے تاہم اگر پینے کے پانی کا معیار بہتر کر لیا جائے تو ہزاروں لوگوں کی صحت اور جانوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ اس پر اُٹھنے والے اخراجات کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد حکومت و انتظامیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صاف پانی کی سپلائی کو محفوظ بنانے کیلئے حکمت عملی ترتیب دے۔ جہاں تک تعلق ہے ایلیٹ کلاس تو وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پانی استعمال کرتی ہے لیکن پاکستان کا عام شہری آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو دھیرے دھیرے موت کے منہ میں جا رہا ہے، اس لئے حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہئے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آتے ہی ڈیموں کی ضرورت پر زور دیا اور اس کیلئے فنڈز بھی جمع کئے گئے، تاہم صاف پانی کی ضرورت و اہمیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے، موجودہ حکومت اگر اس حوالے سے کوئی اقدام اُٹھاتی ہے تو عوامی فلاحی منصوبہ ہونے کیساتھ ساتھ اسے سیاسی طور پر بہت فائدہ ہوگا، اپوزیشن نے تحریک انصاف کے اکثر منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ہم وثوق کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے پینے کے صاف پانی کے حکومتی اقدام کی مخالفت کی تو انہیں لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنے کے علاوہ سیاسی نقصان بھی اُٹھانا پڑے گا۔ یہ درست ہے کہ پانی کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے رقم اور وقت درکار ہوگا لیکن اس ہدف کا حصول ناممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت، نجی اداروں، تعلیمی اداروں، میڈیا اور عوام الناس کو درست معلومات فراہم کرے اور ان میں مسئلے کو حل کرنے کا جذبہ ہو تو پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات