3 320

شکست وفتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور

ٹکٹوں پر پھڈا پڑا ہوا ہے، سپریم کورٹ میں خفیہ ووٹنگ کا معاملہ زیربحث ہے، فاضل جسٹس صاحبان کے ریمارکس آرہے ہیں، اور بالآخر نتیجہ کیا آتا ہے اس پر فیصلہ سامنے آنے تک کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس طرح کے حالات میں صورتحال پر کوئی بھی تبصرہ عدالت کے کام میں مداخلت کے زمرے میں آتی ہے، اس لئے اس سے احتراز کرتے ہوئے ہم معاملے کے دیگر ان پہلوؤں پر بات کریں گے اور وہ جو بجلی کے آلات خصوصاً زیادہ قوت کے میٹروں اور مین بورڈ کے نیچے ایک کھوپڑی اور دو ہڈیوں کو کراس کی شکل میں چھاپ کر اس کے ساتھ ”خطرہ440وولٹ” لکھ کر لوگوں کو خبردار کیا جاتا تھا کہ اس مقام سے دور رہیں، تو عدالت عظمیٰ میں بحث مباحثے سے خود کو دور رکھنے ہی میں عافیت ہے، اسی لئے فی الحال ٹکٹوں پر اختلافات اور بعض جماعتوں میں ان دنوں جس طرح پہلے کچھ لوگوں کو ٹکٹ دیئے گئے مگر پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کی جانب سے ان پر اعتراض کرنے کے بعد کہیں ”تبدیلی” آگئی ہے اور کہیں تبدیلی پر غورو خوض ہو رہا ہے، مگر اسے کیا کہا جائے کہ ٹکٹوں کے خواہشمند نچلے نہیں بیٹھ رہے اور وہ جو عبدالقادر نامی شخص کو پہلے ٹکٹ ملا اور پھر پارٹی کے اندر اختلاف اس قدر بڑھا کہ بے چارے کو ٹکٹ سے محروم ہونا پڑا تاہم ممکن ہے کہ ان کیساتھ مبینہ طور پر اس کے بدلے جو ”وعدے” کئے گئے ہوں ان کے نزدیک ان وعدوں کی کوئی اہمیت نہ ہو بلکہ انہیں خدشہ ہو کہ وعدوں کے لالی پاپ سے کام نہیں چلنے کا کیونکہ یہاں تو صورتحال ”نقدسودا” اس ہاتھ لے اس ہاتھ دے” والی ہی زیادہ مفید ہو سکتی ہے اور ویسے بھی موصوف کے بارے میں جو ”افواہیں” گردش کررہی تھیں اور انہی کی وجہ سے ووٹ کی قیمت کے تعین کا بھی ایک بڑے صاحب کی زبانی لوگوں کو علم ہوا تھا جس کے بعد ”فروخت کنندگان” کے منہ میں پانی کا بھر آنا لازمی تھا، مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ متعلقہ (مبینہ) خریدار نے پہلے اس فیصلے (ٹکٹ کی واپسی) کو سراہا اور خود کو پارٹی کا سپاہی قرار دیا مگر تازہ خبروں نے ساری صورتحال ہی تبدیل کر کے رکھ دی یعنی اب یہ خبر آئی ہے کہ اسی عبدالقادر صاحب نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے ہیں۔ اب اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ایک تو یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح مبینہ طور پر بعض تجزیہ نگار یہ کہتے آئے ہیں کہ موصوف نے ”بھاری رقم” ادا کر دی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رقم واپس نہیں ہوئی، کہ اصولی طور پر جب ٹکٹ واپس لیا گیا تو محولہ رقم لوٹا دینی چاہئے تھی، اب حقیقت کیا ہے یہ تو رقم دینے اور لینے والے بخوبی جانتے ہیں، جبکہ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرنے کے بعد موصوف نے ممکنہ فروخت کنندگان کو ایک بار پھر آس لگا دی ہے کہ فکر نہ کریں ”چھانگا مانگا” کی تاریخ اب بھی دوہرائی جاسکتی ہے، ادھر دوسری جانب ڈاکٹر عامر لیاقت کا ایک تازہ بیان بھی سامنے آگیا ہے کہ وہ حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ وہ تحریک انصاف کے نہیں یوں اسلام آباد کی نشست پر مقابلہ دن بدن سخت مگر دلچسپ ہوتا جارہا ہے ممکن ہے کہ اس پر آنے والے دنوں میں افتخار عارف کا یہ شعر منطبق ہوتا دکھائی دے کہ
شکست وفتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثال مالِ غنیمت لٹا دئیے گئے لوگ
کیونکہ اس نشست کے حوالے سے ”جانبداری اور غیر جانبداری” کے حوالے سے بھی تبصرے ہورہے ہیں، سو دیکھتے ہیں کہانی کدھر کو جاتی ہے کیونکہ اسی نشست کو آنے والے دنوں میں حکومت کیلئے گیم چینجر کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ کہ بقول دلاور فگار
ملی تھی راہ میں جمہوریت کل
جو میں نے خیریت پوچھی تو رودی
وہ بولی میں بھی باعزت تھی پہلے
مگر لوٹوں نے لٹیا ہی ڈبو دی
ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے مکدر ہوئی سیاسی فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا بہرحال فرحت اللہ بابر کیساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے، اور جہاں مبینہ طور پر کروڑوں کی بولیوں کی بات کی جارہی ہے، وہاں بابر صاحب کی حالت دیکھئے کہ جب وہ کاغذات جمع کرانے گئے تو ان کے پاس سینیٹ الیکشن میں مقررہ فیس کی رقم بھی موجود نہیں تھی اور انہیں دیگر ساتھیوں سے قرض لے کر ادائیگی کرنی پڑی، بابر صاحب کا تعلق پیپلزپارٹی کیساتھ ایک ایسے بندھن کا ہے جس پر اگر بابر صاحب فخر کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی بھی ایسے ”جیالوں” کو اپنا حقیقی اثاثہ سمجھتی ہے، اگرچہ ایک وی لاگر اور سینئر صحافی کے مطابق بابر صاحب کو اس صورتحال کا سامنا اس لئے کرنا پڑا کہ عین موقع پر انہیں پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹیکنوکریٹ کیساتھ ساتھ جنرل نشست پر بھی کاغذات جمع کرنے کی ہدایت کی اور متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر کے اندر کھڑے کھڑے انہوں نے دوسری نشست کیلئے کاغذات بھرے تو مطلوبہ رقم کم پڑ گئی تھی، تاہم اس سے سیاست میں بے لوث ارکان پر پارٹیوں کے اعتماد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار