mushtaq shabab 36

یہ دستورزباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

گائوں کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ گپ شپ کے دوران یہ جو بعض لوگ ایک دوسرے کو نامناسب الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور جس سے کبھی کبھی تلخی بہت بڑھ جاتی ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ جو بھی شخص اس قسم کے لفظوں کا استعمال کرے گا وہ مخاطب کو بطور جرمانہ بیس روپے ادا کرے گا۔یہ بات ہمیں اپنے بزرگوں نے بتائی تھی اور تب کے بیس روپے آج کے ہزاروں بنتے تھے گویا اس زمانے میں باہم اتفاق سے خواجہ حیدرعلی آتش کے اس شعر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سوبگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
اس کے بعد اس زباں بندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوانوں کی ٹولیوں کے گپ شپ کے اندر سے وہ”لذت”ہی اڑ گئی جو عمومی طور پر دوستوں کے مابین ایک دوسرے کو”گالیوں”سے نوازنے سے منہ کا ذائقہ بلکہ چٹخارہ ہی بدل جاتا ہے اورگفتگو میں وہ چاشنی ہی نہیں رہی اس پھیکے پن کا نتیجہ دیکھ اور محسوس کر کے اور یہ سوچ کر کہ
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اس کا حل یار لوگوں نے یہ نکالا کہ باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے کو گالیوں کی سان پررکھتے ہوئے جرمانے سے بچنے کیلئے کہہ دیتے کہ”ہوتو ہو’مگر بیس روپے نہیں ہیں”اس لئے خاموش ہوں،۔اپنے بزرگوں سے سنا ہوا یہ واقعہ یاد آنے کی وجوہات آپ بھی بخوبی جانتے ہیں ،حالانکہ درپیش صورتحال پر ان دنوں بحث ہورہی ہے اور مسئلہ ایک اہم ادارے کے بارے میں منفی خیالات کے اظہار پر پابندی لگانے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بل لانے کا ہے جس سے اصولی طور پر اتفاق لازمی ہے کیونکہ آئین میں پہلے ہی دو اہم اداروں کو تنقید سے ماورا ٹھہرایا گیا ہے اور آئین کی پیروی ہرپاکستانی پر لازم ہونے کے ناتے ایسے بیانیوں کو از خود روکنے کی سعی کرنی چاہئے،یعنی اصولی طور پر آئین میں واضح تحریر کئے جانے کے بعد کسی اور بل کی ضرورت کتنی باقی رہ جاتی ہے جس میں5لاکھ روپے جرمانہ اور دوسال قید یا دونوں کی سزا تجویز کی گئی ہے ۔سوشل میڈیا پر محولہ بل کے حوالے سے تبصرے کرتے ہوئے بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہماری جیب میں پانچ لاکھ روپے نہیں ہیں اس لئے خاموش رہنا بہتر ہے،حالانکہ اس بل پر ایک جانب خود حکومتی وزراء چودھری اور شیریں مزاری نے بھی جو تبصرے کئے ہیں وہ قابل غور ہیں چودھری صاحب نے گزشتہ روز ایک بیان میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب دانستہ طور پر مسلح افواج کی تضحیک کرنے والوں کے خلاف دوبرس قید یا جرمانے کی سزا کے بل کی منظوری کے ایک روز بعد کہا ہے کہ تنقید کو جرم قرار دینا مضحکہ خیزخیال ہے فواد چوہدری نے سینئر صحافی مظہر عباس کی ایک ٹویٹ کے ردعمل میں جس میں مذکورہ صحافی نے محولہ بل کی منظوری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ شہری پارلیمنٹ سیاستدانوں اور میڈیا پر تنقید کیلئے آزاد ہیں لیکن باقی قومی مفاد ہے،اس ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے فواد چوہدری نے لکھا کہ تنقید کو جرم قرار دینا بالکل مضحکہ خیز خیال ہے عزت کمائی جاتی ہے لوگوں پر مسلط نہیں کی جاتی انہوں نے مزید لکھا کہ انہیں اشد ضرورت محسوس ہوئی کہ تنقید کو روکنے کیلئے نئے قوانین متعارف کروانے کے بجائے توہین عدالت سے متعلق قوانین کو منسوخ کیا جانا چاہئے۔ خاتون وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھی مذکورہ بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔ان دونوں وفاقی وزراء کے بیانیوں سے مترشح ہو تا ہے کہ وہ اس بل کی قائمہ کمیٹی سے منظوری پر متفق نہیں ہیں اور وہ بقول اقبال عظیم آبادی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ
جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر
سر اتنا مت جھکائو کہ دستار گرپڑے
محولہ بل کی منظوری میں ابھی کئی مراحل باقی ہیں،قومی اسمبلی سے تو ممکن ہے کہ یہ آسانی سے منظور ہوجائے کہ وہاں تحریک انصاف او ر اتحادیوں کی تعداد بل کو پاس کرنے کیلئے کافی ہے تاہم سینیٹ میں کیا ہوگا؟اگر اپوزیشن ڈٹ جائے تو مشکل پیش آسکتی ہے جس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا جا سکتا ہے تاہم دوسری جانب بارکونسل نے اس بل کو آئین کے آرٹیکل19کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اس حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے یہ آراء بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں کہ اس بل کی منظوری سے تو مارشل لاء مسلط کرنے والوں کی بھی عزت کرنا ہوگی اور آئندہ کیا ہوگا؟اس بارے میں بھی دبی زبان میں تبصرے کئے جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر یہ معلومات بھی شیئر کی جارہی ہیں کہ مذکورہ بل پیش کرنے والی شخصیت،مرحوم ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے فرزند ارجمند ہیں جنہوں نے مشرف حکومت میں پارلیمانی امور اور دیگر وزارتوں کے مزے لوٹے اور تب حکومت کے ہر غلط اقدام کے تحفظ میں آئین کے مختلف آرٹیکلز کو ملا کر نئے خود ساختہ معانی اور مطالب تراشتے رہتے تھے،اب ایسی شخصیت کے فرزند ارجمند سے قوم اور کیا توقع کر سکتی ہے کہ آئین میں پہلے ہی افواج پاکستان اور عدلیہ کے تحفظ اور ان پر بے جا تنقید پر سزا موجود ہونے کے باوجود نئے بل لاکر نئے پنڈورہ باکس کھولنے کی سعی کرے،کہ بقول ظہیر کاشمیری
رات بھر بیٹھے رہے دیدۂ بیدار کے ساتھ
ظلمتیں کم نہ ہوئیں صبح کے آثار کے ساتھ
ابھی کچھ اور کڑی دھوپ میں چلنا ہوگا
ربط اتنا نہ بڑھا سایۂ دیوار کے ساتھ

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا