3 442

افغانستان کی بساط کا کمزور مہرہ

نائن الیون کے بعد امریکہ تنہا افغانستان میں وارد نہیں ہوا۔نیٹو اور ایساف کی صورت اسے درجنوں فوجی اتحادیوں کی مدد حاصل تھی۔یہ سب وہ کردار تھے جو امریکی چھتر چھائے میں اعلانیہ افغانستان میں داخل ہوئے مگر ایک کردار ایسا تھا جو سائے کی طرح امریکی جہازوں پر افغانستان داخل ہوااور پھرخفیہ طور پر ہی اپنا کام کرتا رہا ہے وہ کردار بھارت تھا۔طالبان کی حکومت کے خاتمے کا سب سے زیادہ فائدہ اسی سائے اور پرچھائی نے اُٹھایا۔بھارت کا ایک ہی مقصد رہا کہ افغانستان میں پاکستان کا قافیہ تنگ کرنا،افغانوں کے دل ودماغ پر قبضہ کرنا اور ان کو اپنے گرویدہ بنانا۔اس طرح بھارت نے طالبان مخالف انقلاب کو پاکستان مخالف انقلاب بنانے کی شکل دی۔اس دور میں پاکستان افغانستان کی گلیوں میں اجنبی ہی نہیں دشمن بن کر رہ گیا۔افغانستان میں کسی پاکستانی کا وجود ایک ناپسندیدہ عمل بن کر رہ گیا۔ افغانستان کے پروجیکٹس پر کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کو جن میں اکثریت پشتون ہوتی تھی، تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔کابل کی گلیوں بازاروں میں پاکستانی ہونا جرم بن گیا۔اس دور کے بھارتی اخبارات افغانستان میں پاکستانیوں کی تذلیل کے واقعات سے بھرے ہوتے تھے۔بھارتی اخبارات نمک مرچ لگا کر کہانیاں بیان کرتے کہ افغان کس طرح پاکستان کی بجائے بھارت کو پسند کرتے ہیں۔ بھارتی فلموں اور موسیقی کے دلدادہ ہیں۔اس طرح بھارت نے امریکہ اور نیٹو کی سرپرستی میں حاصل ہونے والی پوری سپیس کو پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لئے استعمال کیا۔اس کے ساتھ ہی افغانستان کو بیس کیمپ بناتے ہوئے پاکستان میں کئی طرح کی مسلح تحریکوں کی منصوبہ بندی کی جانے لگی۔اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں آگ بھڑک اُٹھی تو قبائلی علاقوں میں پاکستان مخالف عسکریت منظم ہونے لگی۔پاکستان کی سرحد کے قریبی شہر وں میں بھارتی قونصل خانے کھلتے چلے گئے۔بھارت نے امریکہ کو یہ باور کرایا کہ پاکستان افغان مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے کا حصہ ہے یا ازخود ایک مسئلہ۔کابل کا حکمران گروہ بھی اس موقف میں بھارت کا ہم نوا بن گیا۔بھارت نے افغانستان میں دور سے نظر آنے والی ایسی سرمایہ کاری کی جس کی چمک دمک عام آدمی کی نظروں کو خیرہ کر سکے۔افغان پارلیمنٹ کی عمارت کی تعمیر اور بڑی سڑکوں اور ڈیموں کی تعمیر کرکے افغانوں پر دوستی کا بوجھ لاد دیا گیا۔ایک طرف بھارت افغانستان میں سرمایہ کا ری کر رہا تھا تو دوسری طر ف افغانستان کو حقیقی امن سے دور رکھ کر دنیا بھر کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی آماجگاہ بنا رہا تھا۔لامحالہ اس کھیل کو روکنے کے لئے پاکستان نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔یہ بھارت کی تاریخی غلطی بلکہ حماقت تھی۔سرمایہ کاری کرنے والی طاقت کا مفاد اس میں ہوتا ہے کہ جہاں وہ پیسہ لگا رہا ہے وہاں دائمی امن ہو۔مستقبل میں بھی کسی کشیدگی اور خانہ جنگی کے اُبھرنے کا امکان نہ ہواور کسی ایسی مرحلے سے بچا جائے کہ جب بدامنی کے طوفان میں سرمایہ کاری خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے۔بھارت نے اس پہلو کو نظر انداز کرکے افغانستان کو پاکستان مخالف عسکریت کا مرکز بنانے کی کوشش کی۔جس سے افغانستان حقیقی امن کی منزل سے دور ہوتا چلا گیا۔اب جبکہ طالبان نے نائن الیون کے بعد برپا ہونے والے انقلاب کا بوریا بستر گول کر دیا ہے اور امریکی چھتری تلے کھڑے ڈھانچے پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں تو یہ ایک نئے انقلاب کا آغاز ہے اور اس میں بھارت افغانستان سے دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہے۔بھارت کی سرمایہ کاری اب اکارت جا رہی ہے اور اسے اپنے خفیہ منصوبے لپیٹ کر بھاگنا پڑ رہا ہے۔یوں بھارت آج افغانستان میں مکافات عمل کا شکار ہے۔نائن الیون کے بعد طلوع ہونے والے انقلاب کا سورج غروب ہو رہا ہے اور انقلاب در انقلاب کا نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔جن طالبان کو بھارت اچھوت سمجھ رہا تھا اب ان سے راہ رسم کے بہانے اور سہارے ڈھونڈ رہا ہے۔ماضی میں بھارت نے طالبان مخالف اتحاد بنانے میں وسطی ایشیائی ریاستوں بالخصوص تاجکستان کا سہارا لیا۔شمالی اتحاد کے ساتھ ملاقاتوں کے لئے دوشنبے کا انتخاب کیا گیا تھا یہ کہانی اب پوری طرح سامنے آچکی ہے۔اس بار چونکہ روس کے تیور بھارت کے لئے بگڑچکے ہیں اور روس اور چین طالبان کے ساتھ پاکستان کے ذریعے تعلقات قائم کر چکے ہیں اس لئے روس کے زیر اثر وسط ایشیائی ریاستیں بھی بھارت کے لئے استعمال نہیں ہو ں گی۔بالخصوص تاجکستان اور پاکستان کے درمیان قریبی رابطہ ہے۔اب بھارت کا واحد سہارا وہی ایران ہے جس کو امریکہ کے کہنے پربھارت نے چاہ بہار سمیت اقتصادی تعاون کے منصوبوں میں دھتکار دیا تھا۔بھارت کی معروف صحافی جیوتی ملہوترہ نے افغانستان کو شطرنج کی ایسی پھیلی ہوئی بساط سے تشبیہ دی ہے جس پر چھانے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔جیوتی ملہوترہ نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کو دونوں ملکوں کے درمیان نئے روابط کی بنیاد قرار دیا ہے۔گویاکہ بھارت اب ایران کے ذریعے طالبان سے مراسم پیدا کرنے کی امید میں ہے۔بھارت کی امید اپنی جگہ مگر اب کی بار صرف طالبان ہی نہیں پاکستان،تاجکستان اور ایران سمیت افغانستان کے تمام ہمسائے کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں۔اگر کوئی بدلا نہیں توافغانستان کے قوم پرست اور حکمران ہیں یا ہمسائے کا ہمسایہ بھارت ہے۔ایران کے بدلنے کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب پاسداران انقلاب کی ترجمان نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹربرائے خارجہ امور حسام رضوی نے ایرانی سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا کہ افغانستان کی ہزارہ برادری کو طالبان کے خلاف ہتھیار اُٹھانے سے گریز کرنا چاہئے۔اگر ہزارہ قبیلہ طالبان کے خلاف لڑائی شروع کرتا ہے اور اس لڑائی میں شیعہ مسلک کے لوگ مارے جاتے ہیں تو اس کا الزام طالبان پر نہیں ہزارہ قبیلہ پر عائد ہوگا۔

مزید پڑھیں:  من حیث القوم بھکاری