Mashriqyat

مشرقیات

دنیا میں دو ہی قسم کے انسان ہوتے ہیں ۔ ایک وہ انسان جس کا حال یہ ہو کہ وہ جو کچھ کرے اس کی قیمت مع اضافہ کے وصول کرنا چاہے۔ دوسرا انسان وہ ہے جو کہ کچھ کرے اسے بھول جائے ۔ اسے اپنے کیے کا کوئی معاوضہ نہ ملے ‘ تب بھی وہ کوئی شکایت نہ کرے ، اپنے دل میں نہ لائے۔ اس کی تسکین کا سامان یہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو مقصد میں لگائے ہوئے ہیں ، نہ یہ کہ اس کو اس کے عمل کا فوری معاوضہ مل رہا ہے۔
پہلی قسم کے لوگ بھی انسان ہیں اور دوسری قسم کے لوگ بھی انسان ہیں۔ مگر دونوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ظاہری صورت کے سوا دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ پہلی قسم کے لوگ صرف بازار چلاتے ہیں ‘ جب کہ دوسری قسم کے لوگ تاریخ بناتے ہیں۔
یہی دوسری قسم کے لوگ انسانیت کا اصل سرمایہ ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بڑا کام کرنے کے لیے ہمیشہ اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ مل کر کام کریں جب اس طرح لوگ ملتے ہیں تو کسی کو کم ملتا ہے اور کسی کو زیادہ ملتا ہے ۔ کوئی کریڈٹ پاتا ہے اور کوئی بے کریڈٹ رہ جاتا ہے۔ کسی کا استقبال ہوتا ہے اور کوئی دیکھتا ہے کہ وہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال بالکل فطری ہے۔ یہ فرق ہمیشہ پیش آتا ہے۔ خواہ وہ کوئی عام تحریک ہو۔ یا کسی پیغمبر کی تحریک ہو۔ ایسی حالت میں متحدہ کوشش کو باقی رکھنے کی واحد قابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ لوگ اپنے حقوق کو بھول جائیں اور صرف اپنی ذمہ داری کو یاد رکھیں۔
اس مزاج کی ضرورت صرف اس لیے نہیں کہ اجتماعی جدوجہد میںکچھ لوگ بے معاوضہ ہو جاتے ہیں’ بلکہ اس لیے بھی ہے کہ ملنے والا معاوضہ اکثر آدمی کے اندازے سے کم ہوتا ہے۔ چنانچہ معاوضہ ملنے پر وہی تمام شکایتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کہ سرے سے کوئی معاوضہ نہ ملا ہوا۔
بڑا کام کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کا حال یہ ہو کہ ان کا عمل ہی ان کا معاوضہ بن جائے ۔ اپنی ذمہ داری کو بھرپور طور پر ادا کرکے ان کو وہ خوشی حاصل ہو جو کسی شخص کو اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کے کام کے نتیجہ میں اس کو کوئی بڑا انعام حاصل ہو جائے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''