12 اکتوبر پھر مت آنا

اکتوبر کا مہینہ آئے تو سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں ” دسمبر پھر مت آنا ”کے عنوان سے لکھی گئی نظم یادآتی ہے ۔بارہ اکتوبر پھر ہماری قومی زندگی میں نہ آئے کیونکہ اس آمرانہ حکومت میں جو غضب ڈھائے گئے آج تک مختلف حوالوں سے قوم ان کا خمیازہ بھگت رہی ہے ۔کہنے کو تو زمانہ بدل گیا ہے اور اب دنیا ہمارے کسی بارہ اکتوبر کو قبول نہیں کرے گی مگر زمانہ تو بارہ اکتوبر کو بھی بدل گیا تھا بلکہ بارہ اکتوبر کی زد میں آنے والے سول حکمرانوں کی خود اعتمادی کا راز فقط زمانے بدلنے کا تاثر تھا ۔اس تاثر کی بنیاد یہ تھی کہ مغرب اب پاکستان میں کسی مہم جوئی کو قبول نہیں کر ے گا ۔یہ مغرب کے پیمانوں سے ناآشنائی کا شاخسانہ تھا ۔مگرب کو ایک مخصوص طرز اور کلچر کی حامل حکومت اور نظام چاہئے وہ جمہوری ہو یا آمرانہ ان کی بلا سے ۔جمہوریت ان کا درد سر ہوتا تو مشرق وسطیٰ میں دہائیوں پہلے شخصی حکمرانی کے بت گر چکے ہوتے اور مغربی پارلیمانی جمہوریت کے ہوائیں چل رہی ہوتیں ۔زمانہ بدلے یا نہ بدلے مضبوط جمہوریت کے لئے سب سے پہلے جمہوریت کے متلاشیوں اور تمنائیوں کو خود کو بدلنا ہوگا۔یہی بارہ اکتوبر کا سبق ہے۔ گزشتہ چند دن سے ایک بارپھر سول ملٹری کشمکش کی افواہیں چل رہی تھیں اور ان افواہوں کا منبع اورمرکز راولپنڈی اوراسلام آباد کے مراکز سے کہیں باہر تھا ۔ان افواہوں کا آغاز یوں تو موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ہوا تھا جب کچھ سیاسی اور صحافتی حلقے مسلسل قیاس آرائیوں کے گھوڑے دوڑا رہے تھے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی فلاں لابی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ اپوزیشن کے ساتھ اچھے مراسم رکھتی ہے۔تین سال انہی قیاس آرائیوں اور افواہوں میں گزر گئے اور حکومت اور فوج ایک صفحے پر موجود رہے اور اس صفحے میں کوئی کمزوری اور تقسیم کی لکیر نہیں اُبھر سکی ۔ایک صفحے کی اس قوت کا کمال یہ تھا کہ غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کے اونٹ کو ریاست کے خیمے میں سر دینے کا موقع نہ مل سکا اور یوں ریاست پاکستان بین الاقوامی دبائو کے کئی ادوار کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوا ۔ماضی میں سول ملٹری کشمکش کا آغاز ہوتے ہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اس خلیج میں قدم رکھنے کا موقع ملتا تھا اور یوں وہ سول قیادت کو ہلہ شیری کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا دیتے تھے جس کا نتیجہ طاقت کی محاذآرائی کی صورت میں نکلتا تھا اور یوں طاقت کی لڑائی میں جیت سب سے زیادہ طاقتور کی ہوتی تھی ۔12اکتوبر1999کو یہی کچھ ہوا تھا ۔سول ملٹری کشمکش کا انجام ایک فیصلہ کن پنجہ آزمائی پر ہوا اور آخر کار اس کا نتیجہ وہی نکلا جو طاقت کی لڑائی میں ہوتا ہے ۔معاملہ اصول اور طاقت کا ہو تو طاقت کو شکست دی جاتی سکتی ہے مگر معاملہ طاقت سے طاقت چھیننے کا ہو تو پھر شکست کمزور کے حصے میں آتی ہے ۔سول اور ملٹری کشمکش میں ملٹری ہی طاقتو ر ہوتی ہے ۔حکومت
جس سیاسی جماعت کے سہار ے پر کھڑی ہوتی ہے وہ ایک ادارے سے زیادہ موسمی پرندوں کا ہجوم اور لمیٹڈ کمپنی کی مانند کھڑی ہوتی ہے۔نہ سیاسی جماعتوں کی منتخب تنظیم ہوتی ہے اور نہ ان کی تشکیل مروجہ جمہوری اصولوں پر ہوتی ہے اور نہ ہی وہ مستقل ادارے کے سے انداز میں منظم کی جاتی ہیں ۔اس کے برعکس فوج ملک کا ایک منظم ادارہ ہوتا ہے ۔بارہ اکتوبر کو بھی حسب روایت کچھ لوگ سول تو کچھ ملٹری چھتری کے نیچے پناہ لے کر آگ کے شعلوں کو ہوا دے رہے تھے۔ اس طرح بھڑک اُٹھنے والی آگ میں سب کچھ بھسم ہو کر رہ گیا ۔کسی کو جیل جانا پڑا تو کوئی جلاوطن ہوا اور سسٹم ڈی ریل ہو گیا ۔یہ ملک کے آخری سول ملٹری کشمکش کا سبق آموز انجام ہے۔ کشمکش کے اس انجام کو دیکھیں تو بارہ اکتوبرکی صبح دوبارہ طلوع کی خواہش کسی دل میںا نگڑائی ہی نہ لے اور ہم آہنگی کے ساتھ معاملات چلائے جاتے رہیں مگر اس کا کیا کیجئے کہ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے یہ ایک ایسے سفر کی راہی ہوتی ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں چند تعیناتیوں کی بنیاد پر پیدا
ہونے والے اختلاف رائے میں اختلافات کی رائی کا پہاڑ بنانے والے حقیقت میں بارہ اکتوبر کی فلم کا ایکشن ری پلے چاہتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ سویلین بالادستی کے خواہش مندوں کی اکثریت اس بار یہ چاہتی ہے کہ فوج سول حکومت کی بساط لپیٹ دے ۔معاملہ سول اور ملٹری کا نہیں معاملہ ایک پراگندہ سوچ کا ہوتا ہے۔ماضی میں بڑے بڑے جمہوریت پسند دانشور جو جنرل ضیاء الحق کو جمہوریت کے قتل پر صبح وشام صلواتیں سناتے تھے جنرل مشرف کے مارشل میں جمہوریت پسندی کا نقاب اُتار کر آمریت پسند بن گئے ۔وہ جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں رطب اللسان نظر آتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے جنرل مشرف ایک روشن خیال اور لبرل حکمران ہیں اس لئے ان کی آمریت کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔اس طرح مسئلہ جمہوریت اور آمریت کا نہیں بلکہ نظریات کا رہا ہے ۔اب بھی جنرل مشرف کے آمرانہ دور میں ان کے سائے میں پلنے اور چلنے والے حالیہ اختلاف رائے میں سول ملٹری کشمکش اُبھرتے دیکھ رہے تھے اور اس میں ان کی ہمدردی سول نظام کی بجائے اس کو اُلٹنے کی خواہش کے ساتھ تھیں۔موجود ہ دور میں سول ملٹری ہم آہنگی اور ایک صفحے کی وجہ سے پاکستان کسی بین الاقوامی دبائو میں نہیں آسکا۔ سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں کے گھوڑے دوڑانے والے ایک اور بارہ اکتوبر کی امید پر بغلیں بجارہے ہیں مگر اس حقیقت میں یہ اختلاف رائے اختلافات میں ڈھلتا نظر نہیں آتاکیونکہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات ہو چکی ہے اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہہ چکے ہیں کہ اختلاف رائے کو قانون کے مطابق حل کیا جائے گا اور ہر ایک کی عزت نفس کا خیال رکھا جا ئے گا ۔گویا کہ معاملے کو”سب کی جیت ” کے اصول کے تحت حل کیا جائے گا ۔یہ جذبہ برقرار رہے تو کوئی بارہ اکتوبر قوموں کی تاریخ میں آئے ہی نہ ۔سول ملٹری کشمکش کا آغاز ہمیشہ سول نظام میں کرپشن کی داستانوں سے ہوتا رہا ہے اس بار سول نظام کے سربراہ کی حد تک ایسی کوئی کہانی کوئی افسانہ موجود نہیں اس لئے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ