اعزاء ‘ اساتذہ اور طلبہ

گزشتہ دو کالموں میں مختلف مسائل کی بجائے قدرے ہٹ کے ایک برقی پیغام کو مرکزی موضوع بنایا گیا تھا یہ غیر ارادی طور پر تھا لیکن اب اس طرح کے موضوعات بارے بھی قارئین اپنے خیالات سے آگاہ کرکے شامل کالم کرنے کی فرمائش کرنے لگے ہیں بعض اجتماعی نوعیت کے موضوعات کا انتخاب کرنے کا ارادہ ضرور ہے البتہ اس کالم کا بنیادی خیال زیادہ سے زیادہ قارئین کے مسائل و مشکلات کو سامنے لانا ہے جو جاری رہے گا۔کچھ قارئین کی جانب سے تعلق داری کے حوالے سے اپنے تجربات شیئر کی گئی ہیں سب کے لئے سبق اور عبرت و آگاہی کے لئے ان میں سے اختصار کے ساتھ مجھے میرے دوستوں سے بچائو قسم کے تجربات اس لئے حصہ کالم بنایا جارہا ہے کہ حقیقی اور غیر حقیقی پہچان میں آسانی ہو میں تو اس امر کی قائل ہوں کہ دست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا اور نہ ہی ضروری ہے کہ آپ کا ہرعزیز اور رشتہ دار رشتہ اس طرح نبھائے جو اس کا حق ہو یہاں تو ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے دستور کا جادو اب سر چڑھ بولنے لگا ہے بظاہر جان چھڑکنے والے وقت آنے پر کنی کترا جاتے ہیں اور کچھ لاتعلق اور الگ تھلگ رہنے والے گرمجوشی سے عاری نظر آنے والے افراد وقت پر ایسی دستگیری اور تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ یقین نہیں آتا میں ہر دو قسم کے تجربات کا ذکر کرنے والوں سے متفق اور واقف ہوں اس لئے یہی کہنا مناسب سمجھتی ہوں کہ کسی کو آزمائے بغیر اس کے بارے میں رائے قائم نہ کی جائے لوگوں کی مجبوریاں بھی دیکھنی چاہئے اور تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کی جائے ممکن ہے ایک وقت میں پیچھے ہٹنے والے دوسری مرتبہ آگئے بڑھیں کسی تعلق کو ضائع کرنے سے قبل سو بار سوچنا چاہئے رشتہ اور تعلق نبھانا مشکل کام ضرور ہے مگر اعلیٰ ظرفی یہ ہو گی کہ تعلق نبھاتے ہوئے منفی چیزوں کو جتنا ہوسکے نظر انداز کیا جائے بندہ بشر ہے کسی نہ کسی مرحلے پر دل اچاٹ ہو ہی جاتا ہے وہ الگ بات ہے
بادوستان تلطف بادشمنان مدارا
یہ فارمولہ تعلقات حوالے سے اچھا ہے لیکن تلطف کے باوجود بھی اس شکایت کی بہرحال پوری گجائش ضرور رکھتے ہیں
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروںکے یار تھے ہم تو
جون ایلیا
چلئے دنیا داری سے شکایات کی طرف بڑھتے ہیں
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض احمد فیض
ایک استاد محترم کا مراسلہ ملاحظہ فرمائیں ہر ذی شعور انسان اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سارے پیشوں میں معزز اور اعلیٰ درجہ معلم کے پیشے کا ہے اور ترقی کا راز بھی بہترین تعلیم اور تر بیت میں پو شیدہ ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ذہین اور قابل ترین لوگ اس پیشے میں آنے سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ دل ہی دل میں اس سے نفرت بھی کرتے ہیں۔جبکہ دیگر دنیا میں عموماً اور ترقی یافتہ مما لک میں خصوصاً cream of the nation لوگ اس فیلڈ میں آتے ہیں اور نتیجہ پھر سب کے سامنے ہے۔جب ایک کاریگر قابل اور ذہین ہو تو ظا ہری بات ہے اس کے پیداواری معیار بھی اچھی ہوگی جیسا کہ سب کومعلوم ہے کہ استاد معمار قوم ہوتاہے اور یہ ایک ایسا کاریگر اور ہنرمند ہوتاہے کہ تمام شعبوں سے وابستہ افراد کا خالق مجاذی ہونے کی حیثیت رکھتا ہے۔اب ذرا سو چنے کی بات ہے کہ اگر پیدا کنندہ producer خود ذہین اور قابل نہ ہو تو اس کے پیداواری معیار بھی 3rd degree ہی ہوگی اگر یہ حقیقت ہے تو ہم کیوں ایسا ہونے دیتے ہیں کیا ہم اتنے بے بس ہیں کہ ہم اس شعبے سے وابستہ افراد کو وہی عزت اور مراعات دیدیں جو ہم دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کو دیتے ہیں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح زندگی گزار سکیں۔ہم اپنے اسلاف کا تاریخ کیوں بھلا کے نئی نسل کے ساتھ زیادتی کرتے ہیںاور اگر آج کے دنیا کی بات کی جائے تو زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم فیشن اور بعض تہذیبی قدروں میں یورپ کا نقل اتارتے ہیں لیکن جب بات تعلیم و تربیت اور سائنس و ٹیکنا لوجی کی آتی ہے تو پھر ہم اس سے آنکھیں چراتے ہیں۔میں چا ہتاہوں کہ ہم تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد کو تمام دیگر افراد جن کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو سے زیادہ اہمیت دیں تاکہ cream of the nation لوگ اس شعبے میں آنا شروع ہو جائیں تا کہ وہ آگے ایسے لوگ پیدا کریں جو ملک و قوم کے لئے مفید خدمات سر انجام دے سکیں اور یہ تب ہوگا جب ہماری حکومتیں اس کے لئے قانون سازی کریں ایک پرائمری استاد کو وہ پروٹوکول دیں جو کہ ایک ڈی سی صاحب کو دیا جاتا ہے ۔
اساتذہ کی بات ہو گئی تو آگے چل کر طالب علموں کی بھی سنتے ہیں کم نمبروں کی شکایت مزید طالب علموں نے بھی کی ہے تعلیمی بورڈز کم نمبروں والے طالب علموں کو ایک موقع پرچہ منسوخ کئے بغیردے رہی ہیں جس سے اچھی توقعات اور طالب علموں سے پوری تیاری کے ساتھ امتحان میں بیٹھنے کی گزارش ہے البتہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت جو طالب علم کم نمبروں کی شکایت کے باوجود ان امتحان میں نہ بیٹھے اس کے حوالے سے فرض کیا جائے کہ وہ شکایت کے باجود مطمئن ہے اور ان کو کسی بہتری کی امید شاید نہیں البتہ جو طالب علم کسی عذر اور مجبوری کی بناء پر ایسا نہ کر سکے اس سے پوری ہمدردی ہے ایک طالب علم کا مراسلہ ہے کہ خصوصی امتحانات ختم کرکے سیکنڈ ایئر کے طالب عملوں کو ستر نمبر دیئے جائیں۔ طالب علم کا اپنا نقطہ نظر ہے یہاں تو پانچ فیصد اضافی نمبروں کے باعث کل گیارہ سو نمبروں سے بھی نمبر زائد آئے ستر نمبر فی طالب علم دیئے جائیں تو مزید ریکارڈ ساز نمبر آئیں گے نمبروں کا کھیل بہر حال ضرور ہے مگر جو طالب علم اس دوڑ میں رہ گئے ہیں وہ ہمت نہ ہاریں اور دیگر شعبوں میں جا کر وہاں محنت کریں تو ناکام نہ ہوں گے ۔ محنت شرط ہے قابلیت ہو تو مواقع بہت آتے ہیں اور راستہ خود بخود بنتا ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش