حقوق نسواں کی مکمل ادائیگی پر توجہ

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے ایک حکم نامے میں شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ لڑکیوں کی شادی کے لئے ان کی رضامندی حاصل کرنا چاہیے۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عورت کوئی جائیداد نہیں بلکہ ایک عظیم اور آزاد مخلوق ہے جسے کوئی بھی امن کے بدلے یا دشمنی ختم کرنے کے لئے دوسرے فریق کے حوالے نہیںکر سکتا ۔ خواتین کو جائیداد میں حصہ اور شادی کے حوالے سے حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین کو زبردستی شادی پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے اور بیوائوں کو ان کے مرحوم شوہر کی جائیداد میں حصہ ملنا چاہئے۔حکم نامے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں گی۔ میڈیا میں محولہ بیان طالبان کی حکومت کی ہدایت کے طور پر آیا ہے لیکن دراصل یہ طالبان حکومت کی ہدایت اور پیغام نہیں بلکہ یہ دین حق کا پیغام اور شریعت کے احکامات ہیں جن پر عملدرآمد طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے افغانستان کی حد تک وہاں کے حکمران مکلف ہیں یہ ذمہ داری ہر مسلمان ملک کے حکمران کی ہے پاکستان اور عالم اسلام کے تمام حکمران اس کے پاسدار اور ذمہ دار ہیں یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر غیر مسلم ممالک کا بھی اتفاق ہے بلکہ وہ اس ضمن میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور اس پر زور دیتے ہیں اس پر اصرار بھی بہت ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے دعوے تو بہت ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کوجوحقوق اسلام نے دیئے ہیں یا پھر حکومتیں اور مختلف تنظیمیں حقوق نسواں کے حوالے سے جس سنجیدگی کا اظہار کرتی ہیں ان پرعملدرآمد کی صورتحال قابل ذکر نہیں اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں ان پر اگرحقیقی معنوں میں عملدرآمد ہوتوافغانستان اور پاکستان ہوں یادوسرے مسلمان ممالک کسی حکومت سے مزید مطالبہ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ طالبان حکومت افغانستان میں حقوق نسواں کویقینی بنانے کی ایسی نظیر قائم کرے گی جس کے بعد دنیا خود بخود قائل ہوجائے گی کہ اسلام اور شریعت میں دیئے گئے حقوق ہی خواتین کے حقوق کی ضمات ہیں۔
انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی
بلدیاتی انتخابات میں امیدواروں کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیرنے کا عمل فوری گرفت کا متقاضی امر ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے پوسٹرز اور بینرز کے مقرر کئے گئے سائز سے امیدواروں کی مہم زور اور شور سے جاری ہے ہمارے نمائندوں کے مطابق پشاور، مردان، ڈی آئی خان، کوہاٹ، بنوں اور ڈی آئی خان سمیت تمام17اضلاع کی گلیاں ، سڑکیں ، چوراہے اور دیواریں بینرز، پوسٹرز اور پینافلکس سے بھر گئے ہیں تاہم ان پوسٹرز کو چسپاں کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کے جاری ضابطہ اخلا ق کو نظر انداز کردیا گیا ہے ا لیکشن کمیشن کے جن احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی ہو رہی ہے وہ ایسا نہیں کہ پوشیدہ ہوں اور ان کا جائزہ لیکر نوٹس لینے کے لئے اضافی عملہ اور لوازمات درکار ہوں بلکہ بڑے بڑے پوسٹرز الیکشن کمیشن کے حکام دھڑلے سے منہ چڑا رہے ہیں جس سے الیکشن کا عمل متاثرہونے کا خدشہ ہے مقررہ سائز سے بڑے بینرز سے عمارتوں کو ڈھک دینا اور روپے پیسے کا کھلا استعمال کسی طور قابل قبول امر نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی قوانین میں اس کی گنجائش ہے الیکشن کمیشن کے صوبائی حکام کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور ایسے تمام بینرزاتروا کر بینرز لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے تاکہ الیکشن کمیشن کا انتخابی ضابطہ اخلاق مذاق بن کر نہ رہ جائے۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد و سخت آمد