سیالکوٹ کا ا فسوسناک واقعہ

سیالکوٹ میں غیرملکی فیکٹری کے غیر ملکی منیجر کوتوہین مذہب کے مبینہ الزام میں جس بیدردی کے ساتھ قتل کیاگیااگرچہ یہ ہمارے دینی تعلیمات کی سراسر نفی اور بربریت ہے جس کی ملک میں علمائے کرام سے لیکر دانشوروں تک عرض ہر سطح پر اس کی مذمت ہو رہی ہے اور شرمندگی کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ اس کا ارتکاب مذہب کے نام پر ہوا ہے اور یہ واقعہ وطن عزیز پاکستان میں رونما ہوا ہے اس لئے ان معاملات کوہمارے دین اسلام اورملک کے خلاف اور حوالے سے اچھالنا بعید نہیں وہ مذہبی جنونی تھے یا پھر فیکٹری کے ورکروں اور منیجر میں روایتی چپقلش یا پھرتوہین مذہب کاکوئی سوچا سمجھا اور جان بوجھ کر واقعہ غلط فہمی تھی یا حقیقت میں اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوا تھا ان معاملات کی تحقیقات اور پس منظرکاعلم توجامع تحقیقات کے بعد ہی ہو سکے گا البتہ اگرسرسری طور پر دیکھا جائے تو ایک اسلامی ملک میں ایک غیر ملکی اور غیرمذہب وعقیدے کے حامل شخص کو کم از کم ہوش و حواس میں اس طرح کے کسی اقدام کی ہر گز جرأت نہیں ہو سکتی کہ وہ دین اسلام کامذاق اڑائے مبینہ پوسٹر یا سٹیکر کیا تھے اور ان کو ہٹاتے ہوئے کسی نے کیوں ان کی حرمت کی طرف توجہ نہ دلائی اور واقع رونما ہونے کے بعد اس طرح کا شدید ردعمل کہ وحشت وبربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے گئے جس کی دین سلام میں کوئی گنجائش نہیں جس کی جید علمائے کرام نے کھل کرمذمت کی ہے ۔چارسدہ کے علاقہ تنگی میں قرآن مجید کی مبینہ بے حرمتی کا واقعہ ہو یا سیالکوٹ کا واقعہ اگردینی جذبات اور اشتعال کو ایک طرف رکھ کر اس کا معاشرتی اندازمیں جائزہ لیاجائے تو یہ محرومیوں اورمتشدد معاشرے کا وہ چہرہ ہے جو خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے مندنی میں قرآن نذر آتش کرنے کے واقعے کے ردعمل میں جوکچھ ہوا اس کی قطعاً گنجائش نہ تھی اور نہ ہی ازروئے شریعت مقدسہ سیالکوٹ میں قانون کو ہاتھ میں لینے اور ایک شخص کو بیدردی سے قتل کرنے کی گنجائش ہے ۔ سیالکوٹ میں جو مبینہ واقعہ پیش آیا اگر واقعی ایسا ہے جو کہ بیان کیا گیا ہے تو بھی اس حوالے سے علمائے کرام سے رجوع کیا جاتا اور ان کی رہنمائی ومشاورت میں عوام اپنے جذبات کا موزوں طور پر اظہارکرتے توزیادہ مناسب ہوتا ۔ دینی معاملات میں خاص طور پر احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے کہ دین کے معاملات میں اطاعت دین و شریعت ہی باعث ثواب و اجر ہیں دینی امور میں جذبات کی نہیں شریعت کے بتائے ہوئے راستوں کواختیارکرنا ہی احسن اورمقبول قدم ٹھہرتا ہے محولہ بالا واقعے کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے تو دستیاب معلومات کی روشنی میں ابھی واقعے کی حقیقی تصویر اور معلومات ہی سامنے نہیں آسکی ہیں جس کی بنیاد پر واقعے کی صداقت پر یقین کیا جا سکے ۔ اس طرح کے واقعات میں جذبات کی رو میں بہہ جانے کی بجائے یہ دیکھنے اور اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم خلفائے راشدین اور اسلامی ادوار میں اس طرح کے واقعات پر کیا طریقہ کار رائج رہا ہے نیز آج کے دور میں اس حوالے سے قانون اس طرح کے واقعات سے کس طرح سے نمٹنے کی نظیر رکھتا ہے ۔لوگوں کو اس امرکا علم ہونا چاہئے کہ ریاستی قوانین کی خلاف ورزی اور خاص طور پر بدامنی کی ازروئے شریعت کوئی گنجائش نہیں بہرحال اس حوالے سے علمائے کرام ہی لوگوں کی بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔وزیراعظم نے اس واقعے کے ملزمان کے خلاف سخت سخت کارروائی کی جویقین دہانی کرائی ہے اور پولیس نے ملزمان کی شناخت اور گرفتاری میں جو پیش رفت کی ہے اس سے بجا طور پر اس توقع کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ ملزموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی اورمظلوم غیر ملکی خاندان کو انصاف ملے گا۔ علمائے کرام کوچاہئے کہ وہ اس طرح کے واقعات کی مثالیں سامنے رکھ کر جمعہ کے خطبات میں عوام کی رہنمائی کریں کہ خود ان کی توہین اور تشدد کرنے والے کفار کے حوالے سے ہمارے پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار وعمل کیا تھا آپ ۖ نے کس طرح اپنے بدتریندشمنوں کو بھیم عاف کیا فتح م کہ کے موقع پرآپۖ کے کردار کا کیا نمونہ سامنے آتا ہے ان کے اسوہ حسنہ سے رہنمائی لی جائے تو اس طرح کے واقعات کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
ایسا کیسے ممکن ہو گا؟
سٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی اور کریش کر جانے کے باوجود پندرہ دن میں مہنگائی میں کمی آنے کی وفاقی وزیر کی پیشگوئی اور دعوے کی حقیقت کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑیگا نوے دن اور چھ ماہ کی یقین دہانیوں کا حشر عوام پہلے ہی دیکھ چکی ہے۔مستزادمشیر خزانہ شوکت ترین کی یہ تسلی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں معیشت کی سمت بالکل درست ہے ‘ گزشتہ سال کی نسبت ریونیو میں 36فیصد اضافہ ہوا ‘ امپورٹڈ چیزوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ‘ حکومت مہنگائی کم کرنے کے لئے اشیائے ضروریہ پر زیادہ توجہ دے رہی ہے کا خلاف واقعہ بیان عوام کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔ان کا مزید ایک موقع پر کہنا تھا کہ ہمارے ہاں غربت کا نہیں بلکہ افراط زرکا مسئلہ ہے، لوئر مڈل کلاس پس رہا ہے، ریسٹورنٹس میں جائیں کھانا کھانے کیلئے لوگوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں، گاڑیاں بھی اسی طرح فروخت ہو رہی ہیں سمجھ سے بالاتر موقف ہیحقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر میں بہتری درکنار روپیہ مزید تنزلی کا شکار ہے تو غربت اور بیروزگاری ہی ملک کے بڑے مسائل ہیں جس کے باعث یہ طبقہ مہنگائی سے بطور خاص متاثر ہوتا ہے عام آدمی اور لوئر مڈل کلاس سخت مشکلات سے دوچار ہے عام آدمی کی مشکلات میں کمی لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیںاس حوالے سے حکومت کی ترجیحات کیا ہیں اور عوامی مسائل میں کمی کیسے آئے گی ان سوالات کاجواب دینے کی بجائے جس طرح کے بیانات دیئے جارہے ہیں وہ اس امر کا اظہار ہے کہ حکمرانوں کوعوام کے مسائل کا یا تو ادراک نہیں یاوہ عوامی مسائل سے علاقہ ہی نہیں رکھتے۔ چند سطحی اقدامات کے علاوہ عوام کی ریلیف کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نظرنہیں آتے یہی وجہ ہے کہ کمزور معاشی حالات کا شکار لوگ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بیروزگاری اور خراب معاشی حالات کے باعث خود کشی کے بڑھتے واقعات تشویشناک ہیں مشیر خزانہ کے تازہ بیان سے دنیا کا کوئی بھی معیشت دان اتفاق نہیں کر سکتا۔ مہنگائی میں روز بروز اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لئے صورتحال کو پررکھ کر دیکھیں تو حقیقت حال واضح ہو گی اس طرح کے مضحکہ خیز بیانات دینے سے عوام میں حکومت کی ساکھ مزید متاثر ہو گی۔بہتر ہو گا کہ عوام کے زخم پر نمک پاشی کی بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان